1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی فوج: گزشتہ برس جنسی حملوں میں پچاس فیصد اضافہ

امتیاز احمد2 مئی 2014

پینٹاگون کی رپورٹ کے مطابق امریکی افواج میں گزشتہ برس ہونے والے جنسی حملوں میں پچاس فیصد کا حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ ان واقعات کی روک تھام کے لیے اب ’شراب پالیسی‘ کا بھی از سر نو جائزہ لیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/1Bsji
تصویر: Getty Images

امریکی وزیر دفاع چک ہیگل کا کہنا تھا کہ سن 2013ء میں رپورٹ ہونے والے مختلف نوعیت کے جنسی حملوں کی تعداد پانچ ہزار اکسٹھ رہی جبکہ اس سے پہلے برس یہ تعداد تین ہزار تین سو سے زائد تھی۔ ان کا اس اضافے کو حیران کن قرار دیتے ہوئے کہنا تھا کہ اس کی پہلے ’مثال نہیں‘ ملتی۔

عمومی طور پر فوج میں ہونے والے جنسی واقعات کو رپورٹ نہیں کیا جاتا۔ سن 2012ء میں ہونے والے ایک دوسرے فوجی سروے کے مطابق اس برس تقریباﹰ 26 ہزار جنسی جرائم کا ارتکاب کیا گیا، جن میں جنسی بدسلوکی سے لے کر عصمت دری جیسے واقعات شامل ہیں۔ یہ سروے ہر دو سال بعد کروایا جاتا ہے لہذا اس برس اس سروے کی بجائے صرف پینٹاگون کی یہ رپورٹ سامنے لائی گئی ہے۔

وزیر دفاع چک ہیگل نے امریکی افواج میں پائے جانے والے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے اپنی چھ نکاتی پالیسی کا اعلان بھی کیا۔ ان کی اس پالیسی میں فوجیوں کے لیے شراب نوشی کی اجازت دینے سے متعلق پالیسی کا بھی از سر نو جائزہ لیا جانا بھی شامل ہے۔ پہلے خیال کیا جاتا تھا کہ جنسی حملوں کا شکار بننے والے پچاس فیصد مرد فوجی ہوتے ہیں لیکن اس نئی رپورٹ کے مطابق ان کی تعداد صرف 14 فیصد بنتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں جنسی حملوں کی شکار بننے والی اسّی فیصد سے زائد تعداد خواتین فوجیوں کی ہے۔

پینٹاگون میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا، ’’مجھے یقین ہے کہ متاثرین کا ہمارے نظام پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔ عام طور پر ایسے جرائم پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے لیکن ہم نے ان کو منظر عام لانے کے لیے اقدامات کیے ہیں اور یہی آپ دیکھ رہے ہیں۔‘‘

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق اس مسئلے پر توجہ مرکوز کرنے کے باوجود امریکی فوج کو ایسے واقعات میں اضافے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایسے بھی واقعات ہیں، جن میں افسروں کی طرف سے جنسی بداخلاقی کی گئی اور اس مسئلے سے نمٹنے کی بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی گئی۔

اس تازہ رپورٹ کے مطابق سن 2013ء میں کل 484 مقدمات کی سماعت ستمبر کے اوآخر تک مکمل کی گئی اور ان میں سے 370 کو ان کے جرم میں سزا بھی سنائی گئی۔ نیویارک کی خاتون ڈیموکریٹ سینیٹر کرسٹین گیلی برینڈ نے ماضی میں بھی مطالبہ کیا تھا کہ جنسی حملوں سے متعلق مقدمات کی چین اینڈ کمانڈ آرمی کی بجائے خصوصی پراسیکیوٹرز کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ ان کی اس کوشش کو رواں سال کے آغاز میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن اس رپورٹ کے بعد اس تجویز پر دوبارہ غور کیا جائے گا۔

سینیٹر کرسٹین گیلی برینڈ کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا، ’’ آج کی رپورٹ بہت زیادہ پریشان کر دینے والی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنسی حملوں جیسی لعنت کو کنٹرول نہیں کیا جا سکا ہے اور فوج میں ہمارا موجودہ عدل کا نظام ٹوٹا ہوا ہے۔‘‘