1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی قید سے اہم طالبان قیدیوں کی افغان حکومت کو منتقلی کا امکان

30 دسمبر 2011

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات میں کامیابی کے حوالے سے امریکی حکومت کے قید خانے گوانتنامو بے سے پانچ اہم طالبان قیدیوں کو کرزئی حکومت کی تحویل میں دینے پر غور کیا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/13beQ
تصویر: AP

نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق طالبان دور کے اہم فوجی کمانڈر محمد فضل وہ ایک اہم قیدی ہے ، جس کو جلد افغان حکومت کی تحویل میں دیا جا سکتا ہے۔ محمد فضل سن 2002 سے امریکی قید خانے گوانتنامو بے میں مقید ہے۔ محمد فضل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سن 1998 سے 2000ء کے درمیان افغانستان کی شیعہ اقلیت کے قتل میں ملوث تھا۔ اس قتل عام میں ہزاروں شیعوں کو تہ تیغ کردیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ محمد فضل انسانی حقوق کے منافی سرگرمیوں میں بھی ملوث بتایا جاتا ہے۔

Flash-Galerie Afghanistan 10 Jahre Intervention Panzerfaust
انتہاپسند طالبان کے ساتھ کئی چھوٹے گروہ بھی شامل ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

اوباما انتظامیہ کرزئی حکومت اور طالبان کے درمیان جاری مذاکراتی عمل کے دوران اعتماد سازی کے حوالے سے محمد فضل سمیت پانچ قیدیوں کو کرزئی حکومت کی تحویل میں دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ قیدی منتقلی کے بعد بھی مقید ہی رکھے جائیں گے۔ افغانستان میں سرگرم طالبان ان پانچ قیدیوں کی منتقلی کی تجویز پیش کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ افغانستان سے باہر اپنے دفتر کے قیام کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ اس مناسبت سے ایسے اندازے سامنے آ چکے ہیں کہ خلیجی ریاست قطر میں طالبان کا دفتر کھولا جا سکتا ہے۔ ایسی اطلاعات پر کابل حکومت نے قطر سے اپنے سفیر کو بھی طلب کرنے کے علاوہ امریکہ کی جانب سے اسے بے خبر رکھنے پر برہمی کا بھی اظہار کیا تھا۔ امریکی حکام گزشتہ دس ماہ سے انتہاپسند طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ان قیدیوں کی ممکنہ منتقلی پر امریکی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ امریکی صدر اوباما جلد ہی ایک قانونی دستاویز پر دستخط کرنے والے ہیں، جس کے تحت امریکی وزارت دفاع مختلف سکیورٹی تقاضے مکمل کرنے کے بعد دہشت گردی کے شبے میں مقید قیدیوں کو ان کے وطن روانہ کر سکی گی۔ اس مناسبت سے امریکی سینیٹ میں انٹیلیجنس کمیٹی میں شامل ری پبلکن پارٹی کے سینیٹر ساکس بائی چیم بلِس (Saxby Chambliss) نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جن قیدیوں کو افغانستان منتقل کیا جا رہا ہے وہ مسلسل امریکہ اور اس کے مفادات کے لیے خطرہ رہیں گے۔ کانگریس میں اس مناسبت سے اراکین میں سخت تقسیم پائی جاتی ہے۔ وائٹ ہاؤس کو ارسال کیے گئے خطوط کی تصدیق اوباما انتظامیہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے بھی کی ہے۔

Flash-Galerie Afghanistan 10 Jahre Intervention Luftangriff
طالبان اپنی کارروائیوں کے بعد پہاڑی غاروں میں پناہ لینے میں مہارت رکھتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

امریکہ میں انتہاپسند طالبان کے ساتھ مجوزہ پلان کے حامی بھی خیال کرتے ہیں کہ کسی بھی ممکنہ ڈیل کے امکانات بہت کم ہیں۔ طالبان اب بھی امریکیوں کو بے دین قرار دینے کے علاوہ افغانستان میں متعین امریکی اور نیٹو فوج کے اہلکاروں پر حملوں سے گریز نہیں کر رہے۔ اوباما کے مخالفین تو پہلے ہی طالبان کی جانب سے مذاکرات پر رضامندی پر یقین نہیں رکھتے۔

رپورٹ: عابد حسین ⁄ خبر رساں ادارے

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید