1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکی مجسمہٴ آزادی کے پیچھے ایک عرب خاتون کا تصور؟

عابد حسین2 دسمبر 2015

امریکی مجسمہٴ آزادی کے سنگتراش نے اپنی تخلیق کی بنیاد نہر سویز پر نصب کرنے کے لیے تجویز کردہ خاکوں کو بنایا تھا۔ اُنیسویں صدی میں فرانسیسی تخلیق کار نہر سویز پر ایک عرب کسان خاتون کے مجسمے کو نصب کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔

https://p.dw.com/p/1HFl8
بلُو مُون اور مجسمہٴ آزادیتصویر: Reuters/E. Munoz

امریکی شہر نیویارک میں نصب مجسمہٴ آزادی یا لبرٹی اسٹیچُو فرانسیسی سنگتراش فریڈرک اگسٹ بارٹولڈی کی تخلیقی صلاحیتوں کا شاہکار ہے۔ اِس بارے میں ایک تازہ ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ بارٹولڈی نے اس مجسمہٴ آزادی کی تخلیق کے وقت اپنے احساسات کے لیے سرچشمے اور جلا کے طور پر اپنے ایک پرانے مجسمے کے خاکے استعمال کیے تھے۔ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب عالمی سطح پر بالعموم اور امریکا میں بالخصوص شام اور دوسرے اکثریتی مسلمان ملکوں کے مہاجرین کے حوالے سے بحث شروع ہے۔

نیویارک شہر میں پانی کے اندر نصب بلند و بالا مجسمہٴ آزادی کی حفاظت کی ذمہ داری امریکن نیشنل پارک سروس کو تفویض کی گئی ہے۔ اِس ادارے نے مجسمے کے حوالے سے کی گئی تازہ ریسرچ کو عام کر دیا ہے۔ نیشنل پارک سروس کے مطابق فرانسیسی سنگتراش بارٹولڈی سن 1855 اور 1856 میں مصر میں قیام پذیر تھے۔ اِس عرصے میں انہوں نے پبلک مقامات پر بڑے مجسمے نصب کرنے کے تصور کو عملی صورت دی تھی۔

Porträt Freiheitsstatue New York Lady Liberty
مجسمہٴ آزادی کا پورٹریٹتصویر: Bryan Busovicki/Fotolia

سن 1869 میں جب اُس وقت کی مصری حکومت نے نہر سویز پر نگرانی کے لیے ایک لائٹ ہاؤس کی تعمیر کے لیے تجاویز طلب کیں تو بارٹولڈی نے بھی اِس میں حصہ لیا۔ انہوں نے مصری حکومت کو ایک عرب خاتون کا مجسمہ بنانے کی تجویز دی۔ اِس تجویز کے ساتھ انہوں نے مجسمے کے خاکے روانہ کیے، جن میں ایک عرب کسان خاتون اپنے ایک ہاتھ میں ایک مشعل پکڑے ہوئے تھی۔ یہ مجسمہ مصر کے حوالے سے ایک استعارے کے طور پر بنانے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ اِس استعارے میں شامل جملہ تھا: ’’مصر نے ایشیا کو روشنی عطا کی ہے‘‘ ۔ اِس مجسمے کے خاکے میں بنائی گئی خاتون میں بارٹولڈی نے ایک عام مصری کسان عورت کے نقوش کو واضح کیا تھا۔

امریکی اسمتھ سونین انسٹی ٹیوشن کے محقق بیری مورینو کے مطابق ابتدا میں بارٹولڈی کی خاتون مصری کسان حجاب کی حامل تھی۔ ایک اور محقق ایڈورڈ بیرنسن نے اِس میں یہ اضافہ کیا کہ بارٹولڈی نے کچھ برسوں بعد اِس عرب خاتون کے نقوش والی صورت کو ایک دیوپیکر دیوی کے مجسمے کی ہیئت دے دی تھی۔

مصری حکومت نے نہر سویز پر کسی عرب کسان خاتون کا مجسمہ نصب کرنے کی تجویز کو پذیرائی تو نہیں دی لیکن سنگتراش کو ایک بڑا مجسمہ تخلیق کرنے کا موقع بالآخر مل ہی گیا۔ یہ موقع اُس وقت ملا، جب فرانیسی حکومت نے امریکی عوام کو ایک ’لبرٹی اسٹیچو‘ دینے کا فیصلہ کیا۔ اِس مجسمے کو تخلیق کرنے کے فریضہ سنگتراش بارٹولڈی کو سونپا گیا۔ بارٹولڈی نے دیوہیکل مجسمے کی تخلیق کا آغاز سن 1870 میں کیا تھا۔ ایک سو اکیاون فیٹ سے زائد بلند یہ مجسمہ امریکی عوام کو سن 1886 میں پیش کیا گیا تھا۔