امریکی وزیر دفاع کی افغانستان متعین افواج سے الوداعی ملاقات
5 جون 2011امریکی وزیر دفاع ہفتہ کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں صدر حامد کرزئی سے ملاقات کرنے کے بعد اتوار کو قندھار کے فوجی ہوائی اڈے پہنچے۔ اس سے قبل صدر کرزئی کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب میں انہوں نے تسلیم کیا کہ امریکی و اتحادی افواج نے بعض مواقع پر افغان عوام کے احساسات اور زمینی حقائق کو نہیں سمجھا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان سکیورٹی دستوں کو ملکی سلامتی کی ذمہ داریوں کے انتقال کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے تاہم امریکہ اور اس کے اتحادی جلد بازی میں افغانستان چھوڑنے کی فکر میں نہیں ہیں۔
گیٹس کا کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان کو بے یار و مددگار چھوڑنے والی وہ غلطی نہیں دہرائے گا جو سابق سوویت فوج کے انخلاء کے وقت کی گئی تھی۔
امریکی وزیر نے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ افغانستان کے ساتھ متصل سرحدی علاقوں میں ایک لاکھ چالیس ہزار پاکستانی فوجی متعین ہیں جو عسکریت پسندوں کی دراندازی کو روکنے کا کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس ضمن میں جنوبی وزیرستان اور سوات آپریشن کا بھی ذکر کیا۔
صدر حامد کرزئی نے اس موقع پر افغانستان میں اتحادی افواج کی فضائی بمباری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ سلسلہ روکنے پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان عوام دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی برادری کے شانہ بشانہ ہیں تاہم فضائی کارروائی میں سویلین ہلاکتیں برداشت نہیں کی جائیں گی۔
امریکی وزیر کے اس دورے کا اولین مقصد اس شورش زدہ ملک میں متعین لگ بھگ 90 ہزار امریکی فوجیوں کو الوداع کہنا ہے۔ یہ فوجی نیٹو کی سربراہی میں اپنے فرائض منصبی ادا کرنے والے لگ بھگ ایک لاکھ تیس ہزار فوجی کمک کا حصہ ہیں جو طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف بر سر پیکار ہیں۔
گیٹس کے بقول، ’’ یہ بطور وزیر دفاع میرے پاس آخری موقع ہے کہ میں ہر ایک فوجی سے آنکھیں ملا کر ان خدمات اور قربانیوں پر شکریہ ادا کرسکوں، جو انہوں نے افغانستان کے مستقبل، اس اہم خطے کے استحکام اور امریکہ کی سلامتی کے لیے ادا کی ہیں۔‘‘ گیٹس کا یہ دورہ اس تناظر میں بھی اہم ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے ایسے اشارے ملنا شروع ہوگئے ہیں کہ طالبان کے ساتھ مصالحتی عمل شروع ہونے والا ہے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: امتیاز احمد