امریکی یہودی مصنف کی اسرائیل پر تنقید
3 مئی 2016شابون کو سن دو ہزار ایک میں ان کی کتاب ’دی امیزنگ ایڈوینچرز آف کیویلیئر اینڈ کلے‘ پر مؤقر پولٹزر پرائز سے نوازا گیا تھا۔ اس کی کہانی دوسری عالمی جنگ کے درمیان اور بعد دو یہودی رشتہ داروں کے گرد گھومتی ہے۔
اکثر امریکی یہودیوں کی طرح شابون بھی اسرائیل سے ایک گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے انیس سو بانوے میں اپنی اسرائیلی اہلیہ کے ساتھ اسرائیل کا دورہ کیا تھا۔ تاہم ان کا حالیہ دورہء اسرائیل، جس کے دوران وہ معروف امریکی مصنفین کے ساتھ فلسطینی علاقوں میں بھی گئے تھے، نے اسرائیل میں ان کے خلاف محاذ کھڑا کر دیا ہے۔
شابون کا کہنا ہے کہ دورے کے مقصد اسرائیل کے فلسطینی علاقوں پر قبضے کے اثرات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا تھا، اور یہ ایک ایسا موضوع ہے جس سے یہودی افراد کو خاص تاریخی نسبت ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے شابون کا کہنا تھا، ’’جو بات مجھے انتہائی خوف ناک معلوم ہوتی ہے، اور جو اسرائیل کے فلسطینی علاقوں پر قبضے کو جنوبی افریقہ میں ایپارتھائیڈ سے جدا کرتی ہے، وہ یہ ہے کہ یہ کام یہودی کر رہے ہیں۔ میں بھی ایک یہودی ہوں۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں: ’’وہ لوگ جو خود ایک طویل عرصے تک مظالم کا شکار رہے ہوں وہ اب خود وہی کام کر رہے ہیں جو ان کے خلاف ہوا تھا، فلسطین کے مسئلے کو جنوبی افریقہ کی آمرانہ طاقت کے مظالم سے جدا کرتا ہے۔‘‘
گزشتہ ماہ معروف ادیب ڈیو ایگرز سمیت کئی امریکی مصنفین نے مشرقی یروشلم، ہیبرون اور رام اللہ کے قریب دیہاتوں کا دورہ کیا تھا۔ یہ افراد غزہ پٹی بھی گئے تھے۔
واضح رہے کہ سن انیس سو سڑسٹھ سے مغربی کنارے پر اسرائیل کا قبضہ ہے۔ اقوام متحدہ کی مخالفت کے باوجود اسرائیلی حکومت نے یہاں وسیع پیمانے پر یہودی آباد کاری کے منصوبے شروع کر رکھے ہیں۔
یہودی امریکی پبلیکیشن ’دا فارورڈ‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں باون سالہ شابون کا کہنا تھا کہ اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں جیسی’’شدید نا انصافی‘ انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔
ان کے ان بیانات پر اسرائیلی میڈیا نے شور مچا دیا ہے اور شابون پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ اسرائیل کے نام ور سوشل میڈیا کیمپینر آرسین شیوا کا کہنا ہے کہ شابون نے ’’واضح طور پر زندگی میں کچھ زیادہ نہیں دیکھا۔‘‘
مصنف جیک اینگیل ہارڈ نے شابون کے انٹرویو کو ’’بیمارانہ‘‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ امریکی طرز زندگی کے باعث بے عقل ہو گئے ہیں۔
تاہم شابون کا کہنا ہے کہ تنقید کا مقصد اسرائیلی ریاست کی نفی کرنا نہیں ہے۔