1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجاپان

امیر ممالک میں اسلحہ رکھنے کے قوانین کیا ہیں؟

10 جولائی 2022

فائرنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات نے دنیا بھر میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ امیر ممالک میں اسلحہ رکھنے کے کیا قوانین ہیں اور لائسنس کے لیے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے؟ یہ جانتے ہیں اس رپورٹ میں۔

https://p.dw.com/p/4DvAV
Schweiz | Abstimmung EU-Waffenrecht
تصویر: picture-alliance/Keystone/A. Wey

جاپان میں جمعہ کے روز سابق وزیر اعظم شینزو آبے کی فائرنگ سے ہلاکت نے پوری دنیا میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ جاپان ایک ایسا ملک ہے جہاں اسلحہ رکھنے کے سخت ضوابط ہیں۔ لیکن ماضی میں کئی ترقی یافتہ ممالک میں ایسے ہائی پروفائل کیسز ہو چکے ہیں۔ ڈی ڈبلیو نے اس رپورٹ میں ایسے چند ممالک میں اسلحہ رکھنے سے متعلق قوانین کا تجزیہ کیا ہے۔

جاپان

جاپان میں قانون کے مطابق کسی کے پاس آتشی اسلحہ، تلوار یا تیز دھار آلات رکھنا غیر قانونی ہے۔ جاپان میں اسلحہ کی نجی ملکیت سے متعلق سخت ترین ضابطے موجود ہیں۔ پولیس اور فوج کے علاوہ کسی کو بھی بندوق رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ عام شہریوں کو صرف شاٹ گن اور ایئر رائفلیں رکھنے کی ہی اجازت ہے۔

یہاں تک کہ جاپان میں ان ہتھیاروں کو خریدنا ایک طویل اور تھکا دینے والا عمل ہے۔ بندوق کے ممکنہ مالک کو لازمی طور پر تربیتی کلاسوں میں شرکت کرنا پڑتی ہے اور کم از کم 95 فیصد کی درستگی کے ساتھ تحریری ٹیسٹ اور شوٹنگ رینج ٹیسٹ بھی پاس کرنا ہوتا ہے۔

درخواست دہندگان کو ذہنی صحت کی جانچ سے بھی گزرنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد پولیس ان کے خاندانی پس منظر کی جانچ پڑتال بھی کرتی ہے۔ اسلحہ خریدنے کے خواہشمند کے مجرمانہ ریکارڈ بھی جانچے جاتے ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ اس کا کسی قسم کا کوئی کریمنل ریکارڈ موجود نہیں۔

Japans Ex-Regierungschef Shinzō Abe nach Attentat gestorben
جاپان میں جمعہ کے روز سابق وزیر اعظم شینزو آبے کی فائرنگ سے ہلاکت نے پوری دنیا میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ جاپان ایک ایسا ملک ہے جہاں اسلحہ رکھنے کے سخت ضوابط ہیں۔ لیکن ماضی میں کئی ترقی یافتہ ممالک میں ایسے ہائی پروفائل کیسز ہو چکے ہیں۔ تصویر: Charly Triballeau/AFP/Getty Images

اس تمام مشقت کے بعد ملنے والا لائسنس بھی صرف تین سال کے لیے کارآمد ہوتا ہے۔ اسلحہ کے مالک کو اپنے لائسنس کی تجدید کے لیے ہر تین سال بعد دوبارہ کلاس اور امتحان دینا لازمی ہوتا ہے اور ساتھ ہی پولیس کو سال میں ایک بار اسلحہ کا اندراج اور معائنہ کروانا بھی ضروری ہوتا ہے۔

شینزو آبے سے قبل، آخری بار پندرہ سال پہلے سن 2007 میں ایک قاتلانہ حملے میں ناگاساکی شہر کے میئر کو قتل کیا گیا تھا۔ اس قتل کے بعد جاپان میں یہ پابندیاں مزید سخت کر دی گئی تھیں  اور غیر قانونی طور پر اسلحہ رکھنے پر سزائیں بڑھا دی گئی تھیں۔

ڈنمارک

چار جولائی کو ہائی لینڈ پارک، الینوائے میں ایسے ہی ایک واقعے میں چھ افراد کی ہلاکت کے بعد امریکی قدامت پسندوں نے، ڈینمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کے شاپنگ سینٹر میں تین جولائی کو ہونے والی فائرنگ کی مثال دی جس میں تین افراد ہلاک ہوگئے تھے، یہ دلیل دی کے بندوق رکھنے سے متعلق طے شدہ سخت قوانین ایسے واقعات کو روکنے میں ناکام ہیں۔ جب کہ ان کے مخالفین کی جانب سے یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ڈنمارک میں سن 1994 سے اب تک صرف تین بڑے فائرنگ کے واقعات ہوئے ہیں - دوسری جانب سن 2022 کے دوران امریکہ ایسے 300 سے زائد واقعات جھیل چکا ہے۔

Dänemark Kopenhagen Schüsse in Einkauszentrum Fields
ڈنمارک میں سن 1994 سے اب تک صرف تین بڑے فائرنگ کے واقعات ہوئے ہیں تصویر: RITZAU SCANPIX via REUTERS

ڈنمارک میں آتشی اسلحے کو وزارت انصاف کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ یہاں کے قوانین کے مطابق شہری مکمل طور پر خودکار آتشی اسلحہ نہیں رکھ سکتے۔ نیم خودکار ہتھیاروں اور ہینڈ گنز صرف خصوصی اجازت لے کر ہی رکھے جا سکتے ہیں۔ ان کی جانچ پڑتال کا عمل بھی جاپان جیسا ہی سخت ہے۔

نیوزی لینڈ

کرائسٹ چرچ میں سن 2019 میں ایک سفید فام بندوق بردار نے 51 افراد کو ہلاک اور کم از کم 40 کو زخمی کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد حکومت نے ایک ماہ کے اندر کارروائی کرتے ہوئے نیم خودکار ہتھیاروں اور اسالٹ رائفلز پر ملک بھر میں پابندی عائد کر دی۔

جرمنی

سن 2015 میں پیرس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے تناظر میں، یورپی کمیشن نے  اصلاحات کا ایک مسودہ تیار کیا تھا جسے سن 2020 میں جرمنی کے ہتھیاروں کے قوانین میں شامل کیا گیا تھا۔ تب سے حکام کو ملکی انٹیلی جینس سروسز سے درخواست دہندہ کی معلومات لینا ہوتی ہیں۔ بندوق کا پرمٹ جاری کرنے سے پہلے، حکام کو ہر پانچ سال بعد یہ بھی چیک کرنا لازم ہے کہ رجسٹرڈ بندوق کے مالک کو ہتھیار رکھنے کی 'جائز ضرورت‘ ہے یا نہیں۔ اس کا عام طور پر مطلب یہ ہوتا ہے کہ پولیس چیک کرتی ہے کہ آیا بندوق کا مالک کسی شوٹنگ کلب کا رکن ہے اور اس کے پاس شکار کا لائسنس موجود ہے یا نہیں۔

یہ اقدام انتہا پسندوں کے حملوں کو روکنے کے لیے کافی ہو گا یا یہ بے سود رہا، یہ بحث جاری ہے۔ ٹوبیاس آر - ہناؤ کا مجرم، جس نے سن 2020 میں 9 افراد کو قتل کیا اور نیو نازی اسٹیفن ای - جس نے سن 2019 میں ایک مقامی گورنر والٹر لیوبکے کو قتل کیا تھا، دونوں شوٹنگ کلب کے ممبرز تھے۔

جرمن نائٹ کلب میں فائرنگ

سوئٹزرلینڈ

سوئٹزرلینڈ دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیاروں سے لیس ممالک میں سے ایک کے طور پر جانا جاتا ہے۔ 8.5 ملین کی آبادی میں 2.3 ملین سے زیادہ  آبادی کے پاس اپنی بندوقیں ہیں۔

سوئٹزرلینڈ میں بندوق کا کلچر بنیادی طور پر اس کی ملیشیا فوج سے جڑا ہوا ہے۔ فوجی سروس تمام مرد شہریوں کے لیے لازم ہے۔ اپنی سروس ختم کرنے کے بعد وہ کام کے لیے استعمال ہونے والی بندوق گھر لے جا سکتے ہیں۔

سوئٹزرلینڈ یورپی یونین کا رکن نہیں ہے لیکن شینگن زون میں ہے اور اس کا ای یو کے ساتھ قریبی تعلق ہے۔ اس بنیاد پر اس ملک پر بھی ہتھیار رکھنے کے حوالے سے وہی قانون لاگو ہوں گے جو کے شینگن ممالک کے لیے بنائے جائیں گے۔

برطانیہ اور ناروے

برطانیہ نے ایسے واقعات اور بندوق کی ملکیت کو محدود کرنے کے لیے ایک طویل حکمت عملی اپنا رکھی ہے۔ اب اس ملک میں اسلحہ رکھنے کے سخت ترین قوانین موجود ہیں۔ سن 1987 میں ہنگر فورڈ کے قاتلانہ حملے کے بعد، جس میں 16 افراد ہلاک ہو گئے تھے، حکومت نے نیم خودکار سینٹر فائر رائفلز کی ملکیت پر پابندی لگانے اور شاٹ گن کے استعمال پر نئی پابندیاں متعارف کرانے کے لیے بڑے اقدامات کیے۔

سن 1996 میں ڈنبلین پرائمری اسکول کا قتل عام، جس میں 16 بچے اور ایک استاد مارے گئے، برطانیہ میں بندوق رکھنے کے قوانین میں مزید اصلاحات کا باعث بنا۔

ناروے میں صورتحال قدرے مختلف نظر آتی ہے۔ سن 2011 میں ایک دہشت گردانہ حملے میں 77 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حملے کی ایک دہائی بعد سن 2021 حملے میں استعمال ہونے والے نیم خودکار ہتھیاروں پر پابندی لگا دی گئی۔ ناروے میں اب بھی دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں آتشی اسلحے کی ملکیت کی شرح بہت زیادہ ہے لیکن اسلحہ سے متعلق تشدد کے واقعات کی شرح کافی کم ہے۔

سینم اوزدیمیر (رب/ع آ)