امیزون کے جنگلات کی حفاظت، نوجوان آبادی کے ذریعے
26 جون 2022تاپیر، چیتے اور ایرماڈیلو ان قریب 430 جانوروں کی اقسام میں شامل ہیں جو برازیل کے اسی مشرقی امیزون جنگل میں رہتے ہیں جو لوئز ہینرک لوپیز فیریرا کا بھی گھر ہے۔
فیریرا مقامی سینکڑوں اقسام کے پھلوں کے درختوں سے مٹھائیاں، جام اور شراب تیار کرتے ہیں۔ 22 سالہ فیریرا اس نوجوان نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو ثابت کر رہے ہیں کہ جنگلوں میں رہنے والی آبادی جس کے لیے اقتصادی مواقع موجود ہوں وہ جنگلات کی کٹائی سے بچاؤ کے علاوہ ان جنگلات میں حیاتیاتی تنوع کے تحفظ میں بھی مدد کر سکتے ہیں۔
فیریرا، ٹاپاجوس اراپیونس نامی علاقے میں رہتے ہیں جو 1.58 ملین ایکڑ رقبے پر محیط ہے اور جس کا 90 فیصد حصہ جنگلات سے گھِرا ہے۔ یہ پرندوں کی 370 سے زائد اقسام، مچھلیوں کی 99 سے زائد انواع اور 13 ہزار سے زائد لوگوں کا گھر ہے جن میں مختلف برادریوں کے لوگ شامل ہیں۔
خود کو مقامی فرد کے طور پر شناخت کرانے والے فیریرا امیزوناس ریاست کے دارالحکومت ماناؤس میں پیدا ہوئے تھے، ان کا خاندان 15 برس قبل یہاں منتقل ہوئی تھی اور اس کے بعد سے یہ جنگل ان کا اصل گھر ہے۔
فریرا کہتے ہیں، ''امیزون رہائش کے لیے بہت زبردست جگہ ہے، یہاں فطرت ہے، ہر چیز بہت جادوئی ہے، مگر ہمارے لیے خطرات بھی ہیں جنہوں نے ہمیں گھیرا ہوا ہے اور جو ہمارے دروازوں پر دستک دے رہے ہیں۔‘‘
غیر قانونی کٹائی کو روکنے کے لیے جنگلی پھلوں کا استعمال
ان جنگلات میں مقامی کمیونیٹیز کی طرف سے محفوظ علاقہ 1990ء کی دہائی کے اختتام پر قائم کیا گیا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے درخت کاٹنے والی کمپنیوں کی بے جا تجاوز کے خلاف دو دہائیوں تک کوشش کی گئی۔ یہ محفوظ شدہ علاقہ قدرتی ماحول کو بحال رکھتا ہے تاکہ لوگ اس کی زمین کو زراعت اور شکار، مچھلی پکڑنے اور جنگلی پودے اگانے جیسے پائیدار اقدامات کے لیے استعمال کر سکیں۔
فیریرا کہتے ہیں کہ جنگلات کی کٹائی سب سے بڑا خطرہ ہے۔ ریاست پارا، جہاں یہ محفوظ علاقہ موجود ہے، سال 2001ء سے 2021ء کے دوران جنگلات کی بہت زیادہ غیر قانونی کٹائی کا شکار رہا۔ برازیلی صدر ژائر بولسونارو کے 2019ء میں اقتدار میں آنے کے بعد سے امیزون کے جنگلات گزشتہ 15 برس کے بدترین غیر قانونی کٹائی کا شکار بنے۔
ایک برازیلی این جی او ہیلتھ اینڈ ہیپی نیس پراجیکٹ (PSA) کے کوارڈینیٹر کائیٹانو اسکانووینو کہتے ہیں کہ برازیل کے امیزون جنگلات میں کٹائی کا 99 فیصد غیر قانونی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے قانونی طور پر لکڑی پیدا کرنے والوں کے لیے کام کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
پی ایس اے ریاست پارا میں گزشتہ 30 برس سے کام کر رہی ہے اور اس وقت 30 ہزار سے زائد افراد کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے اور انہیں تربیت اور مالی معاونت فراہم کر کے انہیں اس قابل بنا رہی ہے کہ وہ جنگلات کو نقصان پہنچائے بغیر پائیدار طریقوں سے اپنا گزر بسر کر سکیں۔
مقامی آبادی کی مدد سے جنگلات کی حفاظت
ٹینیور فیسیلٹی نامی ایک این جی او کے چیف پروگرام آفیسر ڈیوڈ کیمووِٹز کے مطابق ہمیں یہ معلوم ہے کہ جب مقامی باشندے ہی اپنے جنگلات کا انتظام دیکھتے ہیں اور انہیں اس کے حقوق حاصل ہوتے ہیں تو وہاں درختوں کی کٹائی کی شرح بہت کم ہوتی ہے۔
کیمووِٹز نے گزشتہ 20 برسوں کے دوران اقوام متحدہ کی مدد سے ہونے والی 300 سے اسٹڈیز کی سربراہی کی۔ وہ کہتے ہیں کہ لاطینی امریکا اور کیریبیئن کے علاقے میں مقامی قبائل اور آبادیاں جنگلات کے سب سے بڑے محافظ ہیں۔ اسے یقینی بنانے کے لیے وہ کہتے ہیں کہ فعال معیشت اور ایک ایسی فضا کی ضرورت ہوتی ہے جہاں نوجوان باشندے ٹھہرنا چاہیں۔
دیمتری سیلیباس (ا ب ا/ب ج)