امیگریشن اسکینڈل، برطانوی وزیرِ داخلہ مستعفی
30 اپریل 2018طویل عرصے سے برطانیہ میں مقیم کیریبیئن خطے سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو غلطی سے ’غیرقانونی تارکین وطن‘ کہنے پر انہیں داخلی طور پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ امبر رُڈ نے ابتدا میں اپنے عہدے پر رہنے کا اعلان کیا تھا، تاہم چند ہی گھنٹوں بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔
یمنی جنگ میں یورپی ممالک مداخلت سے کتراتے کیوں ہیں؟
برطانیہ میں سیاسی پناہ لینے کا طریقہ کیا ہے؟
در بہ در بھٹکنے والا ایک مہاجر آخر ڈاکٹر بن گیا
برطانوی وزیراعظم ٹیریزا مے کے دفتر سے اتوار کے روز جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امبر رُڈ کا استعفیٰ منظور کر لیا گیا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد برطانیہ کی تعمیر نو کے لیے کیریبیئن خطے سے تعلق رکھنے والے افراد کو برطانیہ لایا گیا تھا، تاہم برطانوی حکومت کی جانب سے اب ان افراد کی تیسری یا چوتھی نسل کو ’غیرقانونی تارکین وطن‘ کہنے پر حالیہ کچھ عرصے میں برطانوی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا تھا۔
اس سلسلے میں برطانوی حکومت کو اور زیادہ سخت تنقید کا سامنا اس وقت کرنا پڑا، جب برطانوی اخبار دا گارڈیئن نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ ان میں سے بعض تارکین وطن کو برطانیہ میں طبی سہولیات تک رسائی نہیں دی گئی اور دھمکایا گیا کہ وہ برطانیہ میں اپنے ’جائز قیام‘ سے متعلق دستاویزات لے کر آئیں، دوسری صورت میں انہیں ملک بدر کر دیا جائے گا۔
اپوزیشن رہنما ڈیان ایبٹ نے رُڈ کے استعفے کے بعد کہا، ’’یہ استعفیٰ حیرت کی بات نہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ اسے اتنا وقت کیوں لگا۔ اس معاملے کی اصل منصوبہ ساز وزیراعظم مے اب سامنے آئیں اور عوام کو مکمل وضاحت دیں کہ ان کی آنکھوں کے سامنے اس انداز کی ناقابل بیان صورت حال کیسے پیدا ہوئی۔‘‘
اپوزیشن لیبر پارٹی کی جانب سے رُڈ سے بار بار کہا جا رہا تھا کہ وہ مستعفی ہو جائیں۔ پیر کے روز اسی تناظر میں لیبر پارٹی برطانوی پارلیمان میں اپنا باقاعدہ ردعمل ظاہر کرے گی۔ حالیہ کچھ دنوں میں رُڈ اور وزیراعظم مے، اس معاملے پر کئی مرتبہ معذرت کر چکی ہیں۔
جمعرات کے روز برطانوی اخبار ’دی وائس‘ کے لیے اپنے ایک مراسلے میں ٹیریزا مے نے کہا تھا، ’’ہم نے آپ کو مایوس کیا، اس کے لیے ہم دلی طور پر معذرت خواہ ہیں۔ مگر اس معاملے میں صرف معذرت کافی نہیں۔ ہمیں اس تاریخی خرابی کو درست کرنا ہے۔‘‘
ع ت / ع س