’انتخابات کے بعد بھی مسائل موجود رہیں گے‘
29 جنوری 2024آٹھ فروری کو پاکستان کے مجوزہ انتخابات سے چند روز قبل انسانی حقوق کی معروف کارکن منیزے جہانگیر نے کہا ہے کہ یہ الیکشن پاکستانی فوج کی طرف سے ترتیب دیے گئے کسی 'میلو ڈرامہ‘ کے سوا کچھ نہیں، جن کے ذریعے ملک کے ''مسائل اور بحران‘‘ ختم نہیں ہو پائیں گے۔
پاکستان میں بیسیوں ملین شہری انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں تاہم انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے حامی ان انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن کا موقف
پاکستان کے ہیومن رائٹس کمیشن ایچ آر سی پی کی شریک سربراہ منیزے جہانگیر نے حال ہی میں دارالحکومت اسلام آباد میں خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے کہا تھا، ''میں اس الیکشن کے بعد پاکستان کے مسائل کم ہوتے ہوئے نہیں دیکھ رہی۔‘‘
منیزے جہانگیر کا مزید کہنا تھا، ''ہم ایک نئی افراتفری اور مشکل کی طرف بڑھ رہے ہیں، جس سے نجات کیسے حاصل کی جائے گی، اس بارے میں کسی کو معلوم نہیں ہو گا۔‘‘
بے جان انتخابی مہم
آٹھ فروری کے الیکشن سے پہلے ملک میں جاری انتخابی مہم جوش اور تیقن سے خالی نظر آ رہی ہے جب کہ دوسری جانب ایک سخت تناؤ اور کشیدگی سابق وزیر اعظم عمران خان اور طاقت ور پاکستانی فوج کے درمیان دکھائی دے رہی ہے۔
عمران خان کی حکومت 2022 ء میں پارلیمان میں عدم اعتماد کی کامیاب تحریک کے بعد ختم ہو گئی تھی۔ اس تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا الزام عمران خان پاکستان کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ پر عائد کرتے رہے ہیں۔ منیزے جہانگیر کے بقول، ''ملکی فوج کا عمران خان کے ساتھ تعلق خوف اور وہم کا مارا دکھائی دیتا ہے۔‘‘
انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم منیزے جہانگیر کہتی ہیں، ''پاکستانی فوج کے ارادوں اور اس کے فیصلوں کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا۔ یہ پہلے سیاسی لیڈروں کو بناتی اور پھر خود ہی انہیں تباہ کرتی ہے۔‘‘
منیزے جہانگیر کا پس منظر
منیزے جہانگیر کا تعلق اس خاندان سے ہے، جو پچھلی کئی دہائیوں سے ملک میں طاقت کے غلط استعمال کے خلاف اور قانون کی بالادستی کے لیے سرگرم رہا ہے اور اسی پاداش میں اسے دھمکیوں اور دھونس کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔
سن 1986 میں ان کی والدہ عاصمہ جہانگیر، جن کا انتقال 2018 ء میں ہوا تھا، نے چند دیگر شخصیات کے ساتھ مل کر ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان HRCP کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ ادارہ آج بین الاقوامی سطح پر ایک قابل احترام ہیومن رائٹس واچ ڈاگ کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔
پاکستان کے 'مورل کمپاس‘ یا 'اخلاقی جہت نما‘ کے طور پر جانی جانے والی انسانی حقوق کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے خواتین اور اقلیتوں کے لیے پہلا قانونی امدادی سیل قائم کیا تھا اور متعدد ایسے تاریخی مقدمات جیتے تھے، جن کی وجہ سے انہیں بسا اوقات سنگین دھمکیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔
انہیں 2007ء میں پاکستان کے آخری فوجی حکمران پرویز مشرف نے ان کے گھر میں نظر بند کر دینے کا حکم دیا تھا اور آئین کو معطل کرتے ہوئے سینکڑوں ناقدین کو حراست میں لینے کا حکم بھی دیا تھا۔
منیزے جہانگیر نے اپنی والدہ کے بارے میں کہا، ''ان کے پاس لوگوں کو اکٹھا کرنے، فوج کو واپس بیرکوں میں دھکیلنے اور سیاست دانوں کے لیے زیادہ سویلین اسپیس بنانے کی حکمت عملی تھی۔‘‘
1947ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد سے پاکستان میں وقتاً فوقتاً مارشل لاء کا نفاذ ملک کے سیاسی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچاتا رہا ہے۔ اگرچہ پاکستان اب سویلین اقتدار کے اپنے طویل ترین دور میں ہے، لیکن سیاسی جماعتوں کو اب بھی اقتدار تک پہنچنے کے لیے 'اسٹیبلشمنٹ‘ کی حمایت کی درکار ہوتی ہے۔
پی ٹی آئی کے لیڈر پر تنقید
عمران خان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی کو آئندہ انتخابات میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ جماعت اس وقت میڈیا سینسرشپ کے علاوہ انتخابی مہم میں بھی سخت رکاوٹوں کا شکار ہے۔ تاہم یہ بات بھی اپنی جگہ ہے کہ ایچ آر سی پی عمران خان کے وزارت عظمیٰ کے ساڑھے تین سالہ دور پر بھی کڑی تنقید کرتا رہا ہے۔ منیزے جہانگیر کا کہنا ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں اظہار رائے کی آزادی پر قدغن، جبری گمشدگیوں پر لگام لگانے میں ناکامی اور ناقدین کو سزا دینے کی مہم چلانے جیسے عوامل بھی کوئی ڈھکی چھپی یا راز کی بات نہیں تھے۔
وہ کہتی ہیں، ''عمران خان اپنے مخالفین کو زیر کرنے اور ان کے بنیادی حقوق چھینے جانے پر فوج کو داد دیتے ہوئے تالیاں بجایا کرتے تھے۔ تب انہیں احساس نہیں تھا کہ ان کے ساتھ بھی کبھی ایسا ہو سکتا ہے۔‘‘ منیزے جہانگیر کے بقول، ''اب فوج کو واپس دھکیلنے اور سویلین اسپیس واپس لینے کا عمل بہت مشکل ہو چکا ہے۔‘‘
انتخابات کی اہمیت
منیزے جہانگیر کا کہنا ہے کہ تمام تر خرابیوں کے باوجود انتخابات کی ضرورت موجود ہے۔ انہوں نے کہا، ''اس وقت کوئی بھی الیکشن پاکستان کے لیے ضروری ہے۔‘‘
پاکستان میں آٹھ فروری کو ملکی عوام میں سے ووٹ دینے کے اہل 125 ملین شہری اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ منیزے جہانگیر کا کہنا تھا، ''ہم واضح طور پر ایسے الیکشن کو ترجیح دیں گے جس میں ہر ایک کو انتخاب لڑنے کی اجازت ہو اور تمام سیاسی جماعتوں کو ایک برابر کا میدان دیا جائے۔‘‘
ک م/ ع ت (اے ایف پی)