انتخابی دھاندلیوں کی کہانی، اب اعتزاز احسن کی زبانی
19 جنوری 2015سوموار کے روز لاہور پریس کلب میں انتخابی دھاندلیوں کے حوالے سے لکھی گئی اپنی نئی کتاب Robbing an Election کی رونمائی کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے الزام لگایا کہ لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر 124 میں فرضی نتائج تیار کیے گئے تھے۔
یاد رہے اس حلقے سے اعتزاز کی اہلیہ بشری اعتزاز نے انتخابات میں حصہ لیا تھا، یہاں سے مسلم لیگ نون کے راحیل اصغر کامیاب قرار دیے گئے تھے۔
تقریب کے بعد ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی اس کتاب میں ثابت کیا ہے کہ حلقہ این اے 124 میں انتخابی ریکارڈ ضائع کرکے الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ سرٹیفکیٹس کی بنیاد پر فرضی نتائج تیار کیے گئے۔
ایک سو چھپن صفحات پر مشتمل یہ کتاب لاہور کے حلقہ این اے 124 کے 264 انتخابی تھیلوں کی جانچ پڑتال کے وہ نتائج لیے ہوئے ہے، جنہیں الیکشن کمیشن کے حکم پر ریٹرننگ آفیسر، الیکشن کمیشن کے حکام اور انتخابی امیدواروں کی موجودگی میں جانچا گیا۔ اس جانچ پڑتال کے بعد اس حلقے میں ہونے والی انتخابی بے ضابطگیوں کے دستاویزی شواہد کوکتابی شکل میں سامنے لایا گیا ہے۔
کتاب کے مطابق الیکشن کمیشن کے حکم پر ہونے والی اس جانچ پڑتال کے لیے ان انتخابی تھیلوں کو پنجاب حکومت کی تحویل سے نکال کر لایا گیا۔ اس حلقے کے 264 پولنگ اسٹیشنز کے معائنے سے ظاہر ہوا کہ 107 انتخابی تھیلوں کی سیلیں ٹوٹی ہوئی تھیں جب کہ 38 تھیلوں پر کسی مہر کا نشان تک نہ تھا۔
اعتزاز کے مطابق 82 تھیلوں پر ایسے ثبوت ملے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا ریکارڈ تلف کیا گیا ہے۔ 12 تھیلوں میں فضول اور غیرمتعلقہ مواد پایا گیا۔ 21 تھیلوں میں فارم 14 اور فارم 15 کے علاوہ کاؤنٹر فائلیں اورانگوٹھے کے نشان والی انتخابی دستاویزات ہی موجود نہ تھیں۔ ان کے بقول ریٹرننگ آفیسر کی جانب سے اتنا بڑا سنگین عمل کسی مقتدر شخص کے حکم پر ہی ہو سکتا ہے، اس حوالے سے تفصیلات الیکشن پر مامور عملے سے پوچھ پڑتال سے ہی سامنے آ سکتی ہیں۔
اعتزاز احسن کے بقول اس کتاب کے لکھنے کا مقصد 2013 کے انتخابات میں بعض عناصر کی طرف سے کیے جانے والے مجرمانہ اقدامات کو دستاویزی شکل دینا تھا۔ ان کے بقول پارلیمنٹ کی کمیٹی کو انتخابی عمل کے حوالے سے سامنے آنے والی شکایات کا جائزہ لینا چاہیے۔ اعتزاز احسن انتخابی ووٹنگ کا ایسا نظام چاہتے ہیں، جس میں انسانی مداخلت کم سے کم ہو اور وہ ووٹرز کی دوہری تصدیق والے بائیو میٹرک سسٹم کو رائج کرنے کے حامی ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ ایک طرف تو پیپلز پارٹی حکومت کو سپورٹ کر رہی ہے اور دوسری طرف اس کے خلاف وائیٹ پیپر شائع کر رہی ہے، اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ ہم حکومت کو گرانا نہیں چاہتے بلکہ اس کو قانون کے دائرے میں لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے بقول حکومت گرانے کے لیے خود وزیر اعظم اور ان کے وزراء ہی کافی ہیں۔
اس کتاب کے شائع کرنے والے ادارے جمہوری پبلِشرز کے سربراہ فرخ سہیل گوئندی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انتخابی بے ضابطگیوں کو دستاویزی شکل دینے سے نہ صرف محققین کو فائدہ ہو گا بلکہ اس سے انتخابی عمل کو شفاف بنانے اور جمہوریت کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ 2013 کے انتخابات کی شفافیت کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات نے ملک کی موجودہ جمہوری حکومت کی ساکھ کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ان کے بقول انتخابی دھاندلی کے حوالے سے جاری تحریک کو موجودہ حکومت کی طرف سے زیادہ دیر تک نظر انداز کرنا آسان نہیں ہو گا۔