انتخابی نتائج میں تاخیر اس بار پھر؟
9 فروری 2024پاکستان میں عام انتخابات کی پولنگ بند ہوئے چوبیس گھنٹے گزر چکے ہیں، تاہم اس وقت الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ جائیں تو وہ بھی ناقابل رسائی ہے۔ کچھ اسی قسم کے مناظر سن 2018 انتخابات کے بعد بھی دکھائی دیے تھے، جہاں بعض حلقوں کے نتائج تین دن بعد سامنے آئے تھے۔
پاکستان الیکشن 2024: غیر معمولی تاخیر کے بعد نتائج سامنے آنے کا سلسلہ جاری
پاکستان: نتائج کی آمد شروع، جماعتوں کی کامیابی کے اپنے دعوے
کراچی میں سندھ اسمبلی کے حقلہ 110 سے انتخابات میں حصہ لینے والے آزاد امیدوار اور سماجی کارکن جبران ناصر نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ انتخابات کے نتائج کے اجراء میں تاخیر اسی وقت ہوتی ہے، جب انہیں 'مینیج‘ کیا جا رہا ہوتا ہے۔ ''انتہائی سادہ سی گنتی کی بات ہے۔ ڈبا کھولا، ووٹ نکالا اور اسے گن لیا۔ اس میں تو کوئی دیر والا کام نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ نے حساب کتاب بٹھانا ہو اور نتائج تبدیل کرنا ہوں، چیزیں تبھی تاخیر کا شکار ہوتی ہیں۔‘‘
گزشتہ روز انتخابات کے موقع پر ملک کے بیشتر علاقوں میں موبائل فون سروس معطل رہی۔ اس حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بھی آن لائن احتجاج دیکھنے میں آیا جب کہ پاکستانی پیپلز پارٹی نے الیکشن کمیشن میں اس کے خلاف شکایت بھی درج کروائی، تاہم ایسے موقع پر پاکستان مسلم لیگ نون کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں دیکھا گیا۔
نتائج کی تاخیر پر بھی پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی جانب سے احتجاج دیکھا گیا ہے، تاہم نون لیگ کی جانب سے کسی قسم کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
آج صبح اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں مسلم لیگ ن کی رہنما اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی صاحب زادی نے لکھا کہ پاکستان مسلم لیگ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے بہ طور ابھری ہے اور نواز شریف جلد ہی 'وکٹری اسپیچ‘ کے ذریعے اپنی فتح کا اعلان کریں گے۔
ن لیگ کے ایک رہنما نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں اس شکایت کا اظہار بھی کیا کہ ٹی وی چینلز پر چار پانچ فیصد پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج کی بنیاد پر اعلانات شروع ہو گئے تھے، تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ حتمی طور پر نون لیگ وفاق اور پنجاب اسمبلی میں نشستوں کے اعتبار سے آگے ہے۔
جبران ناصر کا تاہم کہنا ہے کہ پنجاب میںانتخابی نتائج کی تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سے چوٹی کے سیاست دان یہاں سے انتخابی معرکے میں شامل ہیں اور ایسے میں کسی کی شکست ایک اپ سیٹ کی طرح دیکھی جائے گی۔ جبران ناصر کے مطابق انتخابات میں ماضی میں تاخیر کی وجہ بھی الیکشنز کو مینیج کرنے کی روایت ہی رہی ہے۔
پاکستانی صحافی غریدہ فاروقی نے انتخابی نتائج کے اجراء میں تاخیر کو دو ہزار اٹھارہ سے مماثلت دی۔
ان کا کہنا تھا، ''دو ہزار اٹھارہ میں بھی اسی طرح سے تاخیر ہوئی۔ یہاں تک کے جو کراچی کے نتائج تھے، وہ چار روز بعد جاری ہوئے۔ ایسے میں دھاندلی کے شدید الزامات عائد کیے گئے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ تب یہ وجہ بتائی گئی تھی کہ آر ٹی ایسایک نیا نظام ہے، جو 'بیٹھ گیا‘۔ تاہم اس وقت ای ایم ایس نظام (الیکشن مینیجمنٹ سسٹم) کا استعمال کیا جا رہا ہے۔
’’میری دو روز قبل الیکشن کے خصوصی سیکرٹری ظفر حسین سے بات ہوئی تھی۔ میں نے ان سے دریافت کیا تھا کہ کہیں یہ نظام بھی بیٹھ تو نہیں جائے گا، تو انہوں نے دو ٹوک انداز میں کہا تھا اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘
غریدہ فاروقی کے مطابق نتائج میں تاخیر کی وجہ سے کئی طرح کے شکوک و شبہات پیدا ہو رہے ہیں اور لوگ سوال کر رہے ہیں کہ نتائج جاری کرنے میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟
صحافی عاصمہ شیرازی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا ، ''تب (سن دو ہزار اٹھارہ) میں بھی یہی ہوا تھا اور لوگوں نے اعتراض کیا تھا اور اب پھر وہی کچھ ہو رہا ہے اور خصوصاﹰ پنجاب میں۔ باقی جگہوں سے تو نتائج معمول کے مطابق ہی آ رہے ہیں، مگر جو کچھ پنجاب میں ہو رہا ہے، اسے گزشتہ انتخابات ہی سے جوڑا جا رہا ہے۔‘‘