انسانوں کی اسمگلنگ کا مسئلہ پاکستان میں کتنا بڑا؟
24 اگست 2024دنیا کے کئی ممالک کی طرح پاکستان کو بھی انسانوں کی اسمگلنگ کے مسئلے کا سامنے ہے، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس جرم میں ملوث افراد سالانہ اربوں ڈالر کماتے ہیں۔
گزشتہ برسوں میں ایسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں جن میں بیرون ملک جانے کے خواہشمند افراد غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک بھیجنے والے ایجنٹوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ اور اس پر خطر راستے کا انتخاب کرنے والوں میں سے کئی موت کے منہ بھی چلے گئے۔
پاکستان میں اس مسئلے کی بڑی وجوہات میں بیروزگاری میں اضافے اور بڑھتی مہنگائی کو بھی شمار کیا جاتا ہے، جس کے باعث عام شہری قانونی یا غیر قانونی طریقے سے ترک وطن پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
پاکستانی حکام کے مطابق ملک میں ہیومن ٹریفکنگ کی روک تھام کے لیے کوششیں جاری ہیں، تاہم انسانی حقوق کے کارکن کہتے ہیں کہ ان اقدامات کے نتائج اب بھی تسلی بخش نہیں ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کی انسانوں کی اسمگلنگ کے موضوع پر تیار کی جانے والی سالانہ رپورٹ میں 2022ء سے پاکستان کی درجہ بندی 'ٹیئر ٹو‘ میں کی جا رہی ہے۔ رپورٹ میں کی گئی تشریح کے مطابق اس ٹیئر میں وہ ممالک شامل ہوتے ہیں جو انسانی اسمگلنگ کے امریکی قانون کے معیار پر تو پورے نہیں اترتے لیکن اس حوالے سے خاطر خواہ کوششیں کرتے نظر آتے ہیں۔
پاکستان میں انسانوں کی اسمگلنگ
اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے خواتین اور بچوں کی بہبود کے ادارے 'یوتھ چینج ایڈووکیٹ‘ کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر اریبہ شاہد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ہیومن ٹریفکنگ کا نشانہ بننے والے پاکستانی باشندوں میں بڑی تعداد اور ''سب سے المناک صورتحال‘‘ بچیوں اور عورتوں کی ہوتی ہے۔
انہوں کے بقول پاکستان میں انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر ''عمل درآمد کا فقدان ہر جگہ نظر آتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں ''خرابی کی ایک بڑی وجہ عملی طور پر یہ واضح نہ ہونا بھی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے کس ادارے نے کیا کرنا ہے؟‘‘
اس حوالے سے مزید وضاحت کرتے ہوئے اریبہ شاہد نے کہا، ''ہیومن ٹریفکنگ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ پاکستان میں اس کی روک تھام کی ذمہ داری ایف آئی اے کو دی گئی ہے لیکن درحقیقت ہیومن ٹریفکنگ کے بہت سے معاملات مقامی یا صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ اس حوالے سے صورتحال کا واضح نہ ہونا کئی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ مثلاﹰ یہ کہ انسانی اسمگلنگ کا کوئی کیس ابتدائی مراحل میں کس کو رپورٹ کیا جائے؟ کیس کون چلائے گا اور اس کیس کا آگے چل کر کیا بنے گا؟ یہ وہ سوالات ہیں، جن کے جوابات کے لیے باقاعدہ واضح اور ٹھوس حکمت عملی کی ضرورت ہے۔‘‘
ملکی سطح پر فعال غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) کے شکایات سیل کی عہدیدار انیلا اشرف کے مطابق پاکستان میں ''ہیومن ٹریفکنگ بہت سنگین مسئلہ‘‘ بن چکا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ جرائم پیشہ افراد غربت، محرومی، نا امیدی اور معاشی مسائل سے نبرد آزما نوجوانوں کی صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہیں، انہیں بہترین مستقبل کے خواب دکھا کر اور ان سے پیسے اینٹھ کر انہیں غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک بھیجتے ہیں۔
انیلا اشرف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سندھ اور جنوبی پنجاب میں انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹ سادہ لوح مردوں اور عورتوں کو ملازمتوں کے نام پر بھیک منگوانے کے لیے بیرون ملک لے جاتے ہیں۔ اس کی ایک حالیہ مثال ملتان ایئر پورٹ پر مختلف اوقات میں مسافر طیاروں سے آف لوڈ کیے گئے مردوں اور خواتین کی ہے۔‘‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ''حکومت ہیومن ٹریفکنگ کی جامع طریقے سے روک تھام کے لیے زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آتی۔‘‘
پاکستان میں خواتین کے حقوق کی تنظیم عورت فاؤنڈیشن سے منسلک صائمہ منیر نے ہیومن ٹریفکنگ کے بارے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی خواتین اور بچیاں ''مجبوری اور محرومی کے باعث اور بہتر زندگی کے جھوٹے وعدوں کے بعد اسمگلروں کا شکار بن جاتی ہیں کیونکہ وہ معاشرے کا سب سے زیادہ غیر محفوظ طبقہ ہیں۔‘‘
ان کے مطابق، ''پدر شاہی پاکستان میں ایسے جرائم کی وجہ فرسودہ ذہنی رویے بھی ہیں اور یہ حقیقت بھی کہ ملک میں قوانین تو ہیں مگر انفراسٹرکچر ایسا ہے کہ قوانین پر عمل درآمد بہت مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘
اس سوال کے جواب میں کہ آیا گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں ہیومن ٹریفکنگ میں کمی ہوئی ہے، ان کا کہنا تھا، ''اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ پاکستان میں انسانوں کی اسمگلنگ واقعی کم ہوئی ہے، تو ایسے کسی دعوے کو پہلے تو اچھی طرح جانچنے کی ضرورت ہو گی۔‘‘
ہیومن ٹریفکنگ کو روکنے کی کوششیں
پاکستان سے انسانوں کی اسمگلنگ کو روکنے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر قانون نافذ کرنے والے کئی ادارے فعال ہیں۔ ان میں صوبائی پولیس کے محکمے بھی شامل ہیں اور وفاقی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی یا ایف آئی اے کا امیگریشن ونگ بھی۔
ایف آئی اے کے افسر برائے تعلقات عامہ عبدالغفور نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''پاکستان گزشتہ چند برسوں سے ہیومن ٹریفکنگ کے خلاف بھرپور اقدامات کر رہا ہے۔ رواں سال کے آغاز پر ایف آئی اے نے انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف ایک جامع آپریشن شروع کیا تھا، جس کے اب تک کے نتائج بہت حوصلہ افزا ہیں۔‘‘
ان کے مطابق اس آپریشن کے نتیجے میں اب تک انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے 655 افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، جن میں سے 14 انتہائی مطلوب جب کہ 136 اشتہاری اسمگلر تھے۔
انہوں نے یونانی سمندری حدود میں ایک کشتی کے حادثے میں پاکستانیوں کی ہلاکت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کو باہر بھیجنے میں ملوث افراد کے خلاف ایف آئی اے کے آٹھ زونز میں 192 مقدمات درج کیے گئے ہیں اور انسانوں کی اسمگلنگ کرنے والے 131 ایجنٹ گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ عبدالغفور نے مزید بتایا کہ 19 ایجنٹوں کے خلاف انٹرپول کے ذریعے ریڈ نوٹس بھی جاری کیے گئے ہیں۔
ڈی ڈبلیو آزادانہ طور پر ان اعداد و شمار کی تصدیق نہیں کر پایا ہے۔
علاوہ ازیں، عبدالغفور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایف آئی اے کے امیگریشن ونگ میں ''خطرات کا تجزیہ کرنے والا ایک ایسا یونٹ بھی قائم کیا جا چکا ہے، جس کا مقصد ملک سے غیر قانونی ترک وطن کے رحجانات کا بہتر طور پر اندازہ لگانا ہے تاکہ اس رجحان کے تدارک کے لیے حکمت عملی کو مزید مؤثر بنایا جا سکے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ''ایف آئی اے امیگریشن ونگ کراچی، اسلام آباد، لاہور اور ملتان کے ہوائی اڈوں پر 'سیکنڈ لائن بارڈر کنٹرول آفسز‘ قائم کر چکا ہے، جو جدید فورینزک ٹیکنالوجی سے آراستہ ہیں اور جن کی مدد سے کسی بھی مسافر کی مشکوک سفری دستاویزات کی موقع پر ہی جانچ پڑتال کر لی جاتی ہے۔‘‘
اس کے علاوہ ہیومن ٹریفکنگ کی روک تھام اور بیرونی ممالک کے ساتھ بہتر تعاون کے لیے پاکستان کے مربوط نوعیت کے سرحدی انتظامی نظام کا بین الاقوامی پولیس انٹرپول کے ڈیٹا بیس کے ساتھ کامیاب انضمام بھی عمل میں آ چکا ہے۔ انٹرپول کے اس ورلڈ ڈیٹا بیس میں مختلف ممالک کے گمشدہ یا چوری شدہ پاسپورٹوں، مفرور ملزمان، اغوا شدہ بچوں اور خطرناک جرائم میں ملوث عناصر کے بارے میں معلومات محفوظ کی جاتی ہیں۔