1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسانی اسمگلنگ کا انسداد : ترک کوششيں جاری مگر نتائج ناکافی

عاصم سليم28 فروری 2016

ترک حکام نے انسانوں کی اسمگلنگ کے انسداد کے ليے کارروائياں تيز کر دی ہيں تاہم اب بھی ہر ہفتے ہزاروں تارکين وطن ترکی سے يونان پہنچ رہے ہيں۔ يہ صورتحال ترک حکومت اور يورپی يونين کو درپيش اس مسئلے کی پيچيدگی کی عکاس ہے۔

https://p.dw.com/p/1I3fx
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose

يورپی يونين کے ساتھ گزشتہ برس نومبر ميں طے پانے والے معاہدے کے تحت انقرہ حکومت نے اپنے ہاں سے ہونے والی انسانوں کی اسمگلنگ کی روک تھام کے ليے کارروائياں تيز تر کر دی ہيں۔ اس ضمن ميں ترک حکام ٹريفیکنگ ميں ملوث گروپوں کے خلاف کريک ڈاؤن، سمندروں کی نگرانی اور غير معياری لائف جيکٹس بنانے والی کمپنيوں پر چھاپے مارنے جيسے اقدامات ميں مصروف ہيں۔ ترکی کے نائب وزير اعظم نعمان کورتولموس کے مطابق، ’’غير قانونی ہجرت کرنے والوں کی تعداد ميں کمی واضح ہے۔‘‘ تاہم ان کا يہ بھی کہنا تھا کہ اس تعداد کو صفر تک پہنچانا نا ممکن ہے اور کسی بھی ملک يا حکومت کے پاس اسے ممکن بنانے کی اہليت نہيں۔

نائب ترک وزير اعظم نے بتايا کہ پچھلے سال 156,000 تارکين وطن کو غير قانونی طريقے سے يورپ جانے کی کوشش کے دوران روکا گيا، جن ميں سے اکانوے ہزار کو سمندروں سے پکڑا گيا تھا۔ انہوں نے مزيد بتايا کہ سن 2015 ميں کُل 4,800 اسمگلروں کو گرفتار کيا گيا تھا، جن ميں سے تقريباً نصف کو يا تو سزا سنائی جا چکی ہے يا پھر ان کے خلاف مقدمات جاری ہيں۔

ترک حکومت پر دراصل دباؤ ہے کہ يورپی يونين کے ساتھ سات مارچ کو ہونے والے اہم اجلاس سے قبل نتائج واضح طور پر نظر آئيں اور اسی ليے وہ اصرار کر رہی ہے کہ ’ظاہری فرق‘ نظر آ رہا ہے۔ البتہ يونانی ساحلوں پر اب بھی ہر ہفتے ہزارہا مہاجرين کی آمد کسی اور ہی صورتحال کی عکاسی کررہی ہے۔ بين الاقوامی ادارے برائے مائیگريشن (IOM) کے مطابق سن 2015 ميں اب تک غير قانونی طريقوں سے 102,500 تارکين وطن يونان اور ساڑھے سات ہزار اٹلی پہنچ چکے ہيں۔

ايک عمر رسيدہ شامی پناہ گزين
ايک عمر رسيدہ شامی پناہ گزينتصویر: Reuters/O. Orsal

دوسری جانب ترک حکام کے ليے زمين اور سمندر پر محيط تقريباً دس ہزار کلوميٹر طويل بارڈر پر مکمل کنٹرول قائم کرنا، کافی بڑا چيلنج۔ بحيرہ ايجيئن سے متصل ترک ساحلی علاقے، انسانوں کے اسمگلروں کے ليے بہترين پناہ گاہيں ثابت ہوتے ہيں۔ ايک سينئر ترک اہلکار نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتايا کہ مہاجرين کی يورپ روانگی کو روکنا ايک پيچيدہ عمل ہے اور انقرہ کی جانب سے اٹھائے جانے والے ’بڑے اقدامات‘ کے نتائج سامنے آنے ميں وقت لگے گا۔

شورش زدہ ممالک اور خطوں سے تعلق رکھنے والے تارکين وطن کی يورپ تک رسائی کو روکنے کے ليے انقرہ حکومت نے ديگر کئی اقسام کے اقدامات بھی جاری رکھے ہوئے ہيں۔ شامی مہاجرين کے ليے ترکی ميں ہی حالات بہتر بنانے کی غرض سے انہيں ملازمت کی اجازت دينے کا فيصلہ کر ليا گيا ہے۔ اس کے علاوہ اس بارے ميں بھی کوششيں جاری ہيں کہ انسانی اسمگلنگ کو ’منظم جرم‘ يا ’دہشت گردانہ کارروائی‘ کے زمرے ميں شامل کيا جائے تاکہ اس کی سزا اور بھی زيادہ سخت کی جا سکے۔ انقرہ نے اس عزم کا اظہار بھی کيا ہے کہ آئندہ برس تک ترکی ميں موجود تمام شامی مہاجرين کے بچوں کے ليے تعليم کی فراہمی کو يقينی بنايا جائے گا۔

واضح رہے کہ ترکی ميں اب تقريباً تين ملين پناہ گزين موجود ہيں، جن ميں سے 2.6 ملين شامی مہاجرين ہيں۔ اس پيش رفت کے تناظر ميں ترکی نے ايک ہی قوميت کے سب سے زيادہ پناہ گزينوں کی ميزبانی کرنے کے معاملے ميں پاکستان کو پيچھے چھوڑ ديا ہے۔ اب اس فہرست ميں سر فہرست ملک ترکی ہے۔