انسانی حقوق کی وزیر کہاں ہیں؟
25 اکتوبر 2018پاکستان کی سپریم کورٹ نے 31 جولائی کو مارٹن کوارٹرز کے حکومتی مکانات کو رہائشیوں کی جانب سے ’اسٹے آرڈر‘ یا عدالتی فیصلے پر عمل درآمد روکنے کی مدت مانگنے سے متعلق درخواستیں مسترد کر دی گئی تھیں۔ اس عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کی صوبائی حکام اس سلسلے میں انفرادی درخواستوں کا خود جائزہ لیں اور پھر فیصلہ کریں۔ عدالتی حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ سرکاری مکانات کو ریٹائرڈ ملازمین اور غیرقانونی رہائشیوں سے خالی کروایا جائے۔ تاہم مقامی افراد یہ مکانات چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہیں، ان میں سے کئی افراد ایسے بھی ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں سے یہاں آباد ہیں۔
گزشتہ روز ان مکانات کو خالی کروانے کی کارروائی کی گئی، تو مقامی رہائشیوں کی جانب سے زبردست ردعمل دیکھنے میں آیا۔ اس موقع پر پولیس کی جانب سے تیز دھار والے پانی کے علاوہ آنسو گیس کا استعمال بھی کیا گیا، تاہم سوشل میڈیا پر اس حکومتی کارروائی پر شدید تنقید دیکھنے میں آئی۔
اس دوران سوشل میڈیا پر وہ تصویریں بھی گردش کرتی رہیں، جن میں ایک طرف اس کارروائی میں مقامی افراد زخمی دکھائی دیے، تو دوسری جانب وزیرِ انسانی حقوق شیریں مزاری اپنے دفتر میں آنکھیں بند کیے دکھائی دیں۔
ایک سوشل میڈیا صارف ہانی قریشی نے لکھا کہ چیف جسٹس وزیراعظم کے ساتھ مل کر طبقہ بالا کی طرف داری میں مصروف ہیں اور غریبوں سے چھت تک چھینی جا رہی ہے۔
سید شقران لکھتے ہیں کہ پاکستان بنانے والوں کی اولادوں پر ظلم کا یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
ایک اور صارف میاں سمیع اللہ پی ٹی آئی حکومت کے تبدیلی کے نعرے پر طنز کرتے ہوئے کہتے ہیں، پاکستان میں یہ تبدیلی کا سال ہے اور چوں کہ نیا پاکستان بن رہا ہے، اس لیے معذرت خواہ ہیں۔