انسداد دہشت گردی کی فوجی عدالتیں: پاکستانی قانون کی مدت پوری
7 جنوری 2017پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے ہفتہ سات جنوری کے روز ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ملک میں فوجی عدالتوں کے طور پر جن ملٹری ٹریبیونلز کا احاطہ یہ قانون کرتا تھا، وہ خاصے متنازعہ تھے، خاص طور پر اس لیے کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کئی تنظیموں کی طرف سے ان پر سخت تنقید کی جاتی تھی۔
ان فوجی عدالتوں کی طرف سے مجموعی طور پر 12 ملزمان کو پھانسی دی گئی اور 149 دیگر ملزمان کو مجرم ثابت ہونے پر سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔
اے ایف پی نے لکھا ہے کہ پاکستان میں ان خفیہ فوجی عدالتوں کا قیام 2014ء میں پشاور میں ایک اسکول پر ہونے والے ایک بہت ہلاکت خیز دہشت گردانہ حملے کے بعد عمل میں آیا تھا۔
تب وفاقی حکومت نے ان عدالتوں کے قیام کا فیصلہ ایک آئینی ترمیم کے بعد کیا تھا اور اس اقدام کی وجہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول کہلانے والے تعلیمی ادارے پر وہ خونریز حملہ بنا تھا، جس میں 150 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ان ہلاک شدگان میں اکثریت بچوں کی تھی۔
آج ہفتے کے روز جب دو سال کے محدود عرصے کے لیے نافذکیے گئے اس قانون کی مدت پوری ہوئی تو حکومت کی طرف سے تب تک یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ آیا وہ اس قانون میں ممکنہ توسیع کرتے ہوئے آئندہ بھی انسداد دہشت گردی کی ان فوجی عدالتوں کو کام کرتے رہنے دینا چاہتی ہے۔
اس موضوع پر اپنے ایک تجزیے میں اے ایف پی نے لکھا ہے کہ جب دو سال قبل ان فوجی عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا تو وجہ ایک ایسا استثنائی اقدام تھا، جس کی مدد سے وفاقی حکومت ملک میں دہشت گردانہ جرائم کے خلاف نظام انصاف میں محدود مدت کے لیے اصلاحات لا سکے۔
لیکن ان ملٹری کورٹس کے قیام کے ساتھ ہی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظیموں نے زیادہ شفافیت کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ بھی کہنا شروع کر دیا تھا کہ یہ عدالتیں تو دنیا کے کسی بھی ملک میں قائم کی جانے والی فوجی عدالتوں کے کم از کم معیارات پر بھی پورا نہیں اترتی تھیں۔
اس سلسلے میں انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس (ICJ) نامی تنظیم نے جمعہ چھ جنوری کے روز اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان فوجی عدالتوں کے قیام کے ساتھ ملکی نظام انصاف میں اصلاحات کی حکومتی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں اور مستقبل میں انسداد دہشت گردی کے لیے چلائے جانے والے مقدمات زیادہ منصفانہ اور قابل اعتماد ہونا چاہییں۔
اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستانی حکومت کو ان خفیہ فوجی عدالتوں کی کارکردگی کے تسلسل کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہوئے ایسے کسی قانون کی دوبارہ منظوری یا نفاذ سے بھی احتراز کرنا چاہیے۔