انٹرنیٹ پر ایک پوسٹ نے ’قبضہ کرو‘ تحریک کو عالمی رُوپ کیسے دیا؟
18 اکتوبر 2011روئٹرز کے لیے یہ تجزیہ سوشل میڈیا مارکیٹنگ کمپنی ’سوشل فلو‘ نے کیا۔ اس کے تحت ٹوئٹر پر اس تحریک کے شروع ہونے سے لے کر تیزی پکڑنے تک کی تاریخ پر نظر ڈالی گئی۔
’وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو‘ Occupy Wall Street، نامی تحریک کو ابھی ایک ماہ ہی ہوا ہے۔ اس کے باوجود یہ تحریک سماجی رابطے کی ویب سائٹوں ٹوئٹر اور فیس بُک کے ذریعے تقریروں اور پمفلٹس کو مات دے گئی ہے۔ اس حوالے سے انٹرنیٹ پر سینکڑوں صفحات منظر عام پر آ چکے ہیں، جن کی وجہ سے تحریک کو تقویت ملی ہے۔
سوشل فلو کے جائزے کے مطابق ’وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو‘ تحریک کے حوالے سے انٹرنیٹ پر سب سے پہلے تیرہ جولائی کو ایک پوسٹ دکھائی دی، جو ایڈبسٹرز گروپ کی جانب سے تھی۔ لیکن اسےکوئی توجہ حاصل نہ ہوئی۔ بعدازاں بیس جولائی کو کوسٹا ریکا کے فلم پروڈیوسر فرانسسکو گوئریرو نے ٹوئٹر پر اس کا پھر ذکر کیا۔ اس پوسٹ میں ’ویک اَپ فرام یور سلمبر‘ نامی ویب سائٹ کا حوالہ بھی تھا، جس میں ایڈبسٹرز کی آواز کو آگے بڑھایا گیا تھا۔
یہ ویب سائٹ دراصل دوہزار چھ میں قائم کی گئی تھی، جس کے منتظمین کا کہنا تھا کہ وہ امریکہ کے دھوکہ دہی پر مبنی مالیاتی نظام کی حقیقت کھولنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے بائبل کی ایک آیت کا حوالہ دیا گیا ہے: ’’اب وہ گھڑی آ پہنچی ہے کہ تم نیند سے جاگو کیونکہ جس وقت ہم ایمان لائے تھے اس وقت کی نسبت اب ہماری نجات نزدیک ہے۔‘‘
گوئریرو کی پوسٹ کے بعد تئیس جولائی تک خاموشی رہی۔ پھر دو پوسٹس منظر عام پر آئیں، جن پر دو ہفتے تک کوئی خاص ردِعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔
اس کے بعد لیزی بُک وارم نے پانچ اگست کو اس حوالے سے ٹوئٹر پر آواز اٹھائی۔ یعنی انٹرنیٹ پر یہ آواز بدستور موجود تھی، لیکن زور نہیں پکڑ پا رہی تھی۔
تاہم اس میں تیزی لانے میں اہم کردار ٹوئٹر کے اکاؤنٹ ’نیویارکسٹ‘ نے ادا کیا، جس پر گیارہ ہزار سے زیادہ ٹوئٹس دی گئیں۔ ٹوئٹر پوسٹس کے رجحانات کا جائزہ لینے والے ٹرینڈسٹک کے مطابق ’آکوپائے وال اسٹریٹ‘ تحریک میں انٹرنیٹ پر سولہ ستمبر کو قابل ذکر تیزی دیکھی گئی۔
دراصل یہی اس کا آغاز تھا، جس کے پہلے دو ہفتے سست رہے۔ نیویارک میں احتجاج شروع ہوا، لیکن ذرائع ابلاغ نے اس پر زیادہ توجہ نہ دی۔ لیکن بروکلین برج پر مظاہروں اور گرفتاریوں نے چنگاری کو ہوا دی اور اب ’قبضہ کرو‘ کے عنوان سے ایسی کئی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوئی ہیں۔
رواں ہفتے کے آغاز تک فیس بُک پر اس حوالے سے ایک سو پچیس سے زائد صحافت بن چکے ہیں جبکہ ٹوئٹر کی ہر پانچ سو میں سے تقریباﹰ ایک پوسٹ اس تحریک سے متعلق ہے۔ اس مقصد کے لیے ویڈیو شیئرنگ کی ویب سائٹس کا استعمال بھی جاری ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل / روئٹرز
ادارت: عاطف بلوچ