انڈونیشیا: حتمی نتائج مرکزی اپوزیشن جماعت کے حق میں
10 مئی 2014انڈونیشیا میں گزشتہ ماہ نو اپریل کو منعقد ہوئے پارلیمانی انتخابات کے حتمی نتائج کا اعلان جمعے کے دن کیا گیا جس کے مطابق اپوزیشن انڈونیشئن ڈیموکریٹک پارٹی آف اسٹرگل (پی ڈی آئی پی) نے سب سے زیادہ یعنی 18.9 فیصد ووٹ حاصل کیے ہیں۔ ملکی قوانین کے مطابق پارلیمانی انتخابات میں پچیس فیصد ووٹ حاصل کرنے والی سیاسی جماعت اپنا صدارتی امیدوار نامزد کر سکتی ہے۔
مرکزی اپوزیشن پارٹی کی طرف سے مطلوبہ ووٹ حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے اب اس پارٹی کے صدارتی امیدوار جوکو ودودو کو باقاعدہ طور پر صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کی مدد حاصل کرنا ناگزیر ہو گئی ہے۔ انڈونیشیا میں صدارتی انتخابات کا انعقاد نو جولائی کو ہو گا۔
ان انتخابات میں پی ڈی آئی پی کو قطعی اکثریت نہ ملنے کے باعث جنوب مشرقی ایشیا میں اقتصادی حوالے سے سب سے مضبوط ملک کی مالیاتی منڈیوں میں بھی ایک مندی دیکھی جا رہی ہے۔ ناقدین کے خیال میں ’ہارس ٹریڈنگ‘ کی وجہ سے ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ ملک کا نیا سیاسی مستقبل کیا ہو گا، اسی لیے اسٹاک مارکیٹ میں ایک بے چینی دیکھی جا رہی ہے اور اسی باعث ملکی کرنسی کی قدر میں بھی کمی واقع ہونے کے خدشات ہیں۔
تاہم جوکو ودودو کی پارٹی نے حتمی نتائج کے جاری کیے جانے کے فوری بعد ہی سیاسی اتحاد ڈھونڈ لیا ہے جب کہ دیگر سیاسی پارٹیاں ممکنہ اتحاد کے لیے مذاکرات میں مصروف ہیں۔ پارلیمانی انتخابات میں 6.7 فیصد ووٹ حاصل کرنے والی ایک چھوٹی سیاسی جماعت ’نیشنل ڈیمویٹک پارٹی‘ نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ پی ڈی آئی پی اور جوکو ودودو کی حمایت کرتی ہے۔ اس پارٹی کے رہنما فیری بالدان نے کہا، ’’ہم نے پہلے ہی اعلان کر دیا تھا کہ ہم پی ڈی آئی۔ پی کی حمایت کرتے ہیں لیکن حتمی نتائج کے اعلان کے بعد اپنے اس اتحاد کی تصدیق کرتے ہیں۔‘‘
توقع کی جا رہی ہے کہ جوکو ودودو جلد ہی اپنے نائب صدر کے امیدوار کے نام کا اعلان کر دیں گے۔ صدارتی انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ اٹھارہ مئی ہے۔ اگر صدارتی الیکشن میں کوئی بھی امیدوار مطلوبہ پچاس فیصد ووٹ حاصل نہ کر سکا تو دوسرے مرحلے کا انعقاد ستمبر میں کیا جائے گا۔
حتمی نتائج کے مطابق سابق صدر سہارتو کی پارٹی گولکر کو 14.8 فیصد جب کہ سابق جنرل پراباوَو سوبیاتو کی گریندرا پارٹی کو 11.8 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ یہ دونوں پارٹیاں سیاسی اتحاد بنانے کے لیے مذاکرات کر رہی ہیں۔ اگر یہ دونوں کولیشن مذاکرات میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو جوکو ودودو کو صدارتی انتخابات میں سخت مقابلہ پیش آنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔
انڈونیشیا کے موجودہ صدر سوسیلو بامبانگ یودھو یونو کی پارٹی کی حمایت میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔ گزشتہ انتخابات میں انہیں بیس فیصد ووٹروں کی حمایت حاصل ہوئی تھی جب کہ اس مرتبہ انہیں صرف دس فیصد ووٹ ہی مل سکے۔ یہ امر اہم ہے کہ ان کے دور صدارت میں انہیں بدعنوانی کے متعدد اسکینڈلز کا سامنا رہا ہے، جس کی وجہ سے عوامی سطح پران کے خلاف ناپسندیدگی پیدا ہو چکی تھی۔