انڈونیشیا، پولیس نے ٹرانسجینڈروں (ہیجڑوں) کے بال کاٹ ڈالے
29 جنوری 2018یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب انڈونیشن صوبے آچے میں مختلف بیوٹی پارلروں پر چھاپے مار کر وہاں کام کرنے والے درجنوں ٹرانسجینڈروں (ہیجڑوں) کو پکڑا۔ ایسی اطلاعات تھیں کہ ان ٹرانسجینڈروں نے لڑکوں کے ایک گروپ کو تنگ کیا تھا۔
پولیس نے ان افراد پر الزام عائد کیا ہے کہ انہوں نے ملکی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مذکورہ ٹرانسجینڈروں کو پولیس اسٹیشن لے جاتے ہوئے راستے میں درجنوں افراد نے ان پر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن حکام نے انہیں پیچھے دھکیل دیا۔
خواجہ سراؤں کی لاش کو ’دو گز زمین‘ بھی مشکل سے مّیسر
بعد ازاں پولیس نے بعض ٹرانسجینڈرز (ہیجڑوں) خواتین کے بال کاٹ کر چھوٹے کر دیے، انہیں مردانہ کپڑے پہننے اور مردانہ آواز میں بولنے پر مجبور کیا۔ مقامی پولیس چیف احمد اُن تنگ سوریاناتا نے اے ایف کو بتایا،’’ ہمیں بعض ماؤں کی طرف سے شکایت آئی تھی کہ اُن کے بیٹوں کو ان ٹرانسجینڈرز خواتین نے تنگ کیا ہے۔ ویسے بھی یہاں ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور میں ایسا نہیں چاہتا۔‘‘
انڈونیشیا میں مذہبی قانون کے تحت کوڑے لگانا ایک عام سزا ہے اور پولیس اکثر غیر سماجی حرکات وسکنات کرنے والوں کے سروں پر اُسترے پھیر دیا کرتی ہے۔
پولیس کے مطابق حراست میں لی گئی ٹرانسجینڈروں (ہیجڑوں) خواتین ابھی کچھ دن اُس کی تحویل میں ہی رہیں گی جہاں اُن کو پانچ روزہ تربیت بھی دی جائے گی۔ اس تربیت میں مقامی مولوی حضرات انہیں مردوں کی طرح بولنا اور چلنا سکھانے کے علاوہ اخلاقیات پر درس بھی دیں گے۔
سوریا ناتا کے بقول،’’ ہم ان کی ذہنیت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ بہتر انسان بن سکیں۔