انھے گھوڑے دا دان
1 جون 2020یہ ان ہونی کبھی کبھی ہوتی ہے۔ پنجابی فلم "انھے گھوڑے دا دان" میں ہدایت کار گروندر سنگھ نے یہ ان ہونی کر دکھائی۔
لیکن پہلے بات ناول کی!
گُردیال سنگھ کا یہ ناول اسی حقیقت پسندانہ اسلوب کا شاہ کار ہے، جس پر برصغیر کے ترقی پسند ادیب عمل پیرا تھے۔ ترقی پسندوں کی حقیقت نگاری میں سنہرے خوابوں کے بادل بھی تھے جو مثلاً کرشن چندر کے رومانی مناظر میں قارئین پر سایہ فگن رہتے۔ لیکن ہندی میں یش پال اور راجندر یادو اور پنجابی میں گردیال سنگھ جیسے فِکشن نگار اس حقیقت نگاری کو دن کی سفاک روشنی میں لے آئے۔
اس سفاک حقیقت نگاری کو پردہ ء اسکرین پر لانے کے لیے گروندر سنگھ کے پاس لفظ بھی تھے اور کیمرہ بھی۔ وہ چاہتے تو گردیال سنگھ کے ناول سے ایک بھرپور اسکرین پلے بھی تیار کر سکتے تھے لیکن ایسے اسکرین پلے میں بہت کچھ ان کہا رہ جاتا۔ انہوں نے اس کے بجائے یہ کیا کہ کیمرے کو خاموشی کی نسبتاً طویل وقفوں میں اپنے کرداروں کے چہروں پر ٹکا رہنے دیا۔ وہ چہرے جنھیں اپنا دُکھ بیان کرنے کے لیے لفظوں کی ضرورت نہیں تھی۔ وجود کا سارا دُکھ ان کے چہروں پر ہی مجسم تھا۔
دو ہزار بارہ میں جب اس فلم کو بھارت کا نیشنل فلم ایوارڈ دیا گیا تو جیوری نے ان کرداروں کے بارے میں ایک فقرہ کہا جو پڑھنے لائق ہے: ''فلم میں پیش کیا جانے والا ہر چہرا کسی مستقل صدمے یا ٹراما کی علامات لیے ہوئے تھا۔‘‘
چہرے، جن پر کسی مستقل صدمے کی تصویر مجسم ہو جائے، ہدایت کار گروندر سنگھ کو کہاں سے ملتے؟ یہاں انہوں نے ایک اور فیصلہ کیا اور وہ یہ کہ وہ زیادہ تر چہرے مشرقی پنجاب کے اسی ضلع کے ایک گاؤں سے لیں گے، جہاں سے خود ناول کے مصنف گردیال سنگھ کا تعلق تھا۔
ان چہروں میں سب سے نمایاں چہرا ناول میں باپ کے کردار کا ہے۔ باپ کے اس کردار پر مستقل دُکھ اور صدمے کا اتنا بوجھ ہے کہ وہ بے سُدھ چارپائی پر پڑا رہتا ہے اور اگر حرکت بھی کرتا ہے تو اس کی رفتار انتہائی سست گام ہوتی ہے۔اس کا دُکھ یہ ہے کہ اس کے پرکھوں کی زمین سے اس کی بے دخلی کا خدشہ پیدا ہو چکا ہے کیوں کہ گاوں کے زمیں دار نے اپنی زمینیں کسی فیکٹری والے کو بیچ دی ہیں۔ اس کا بیٹا میلُو گھر سے بھاگ کر شہر چلا گیا ہے جہاں وہ رکشہ چلاتا ہے۔ اس کی بیٹی جوان ہو رہی ہے، جس کے لیے اسے جہیز بنانا ہے۔
دیگر کرداروں میں سے ایک اس بوڑھے کی بیوی ہے، جس کے اپنے دُکھ ہیں۔ وہ سمجھتی ہے کہ اس کے دُکھوں کا سبب اس کی بہو یعنی میلُو کی بیوی ہے جو شہر میں میلُو کے ساتھ نجانے کون سی عیاشی کرتی پھر رہی ہے۔ بوڑھے کی بیوی کو جب موقع ملے اپنا غصہ پنجابی کے ان طعنوں کی شکل میں باہر نکالتی ہے، جو سننے میں کسی غیر کو مزے دار بھی لگیں گے لیکن جن کی کاٹ وہی جانتا ہے، جس نے وہ طعنے سہے ہوں۔
میلُو، جس کے بارے میں سمجھا جا رہا ہے کہ وہ گھر والوں سے بے خبر شہر میں عیاشی کر رہا ہے، شہر میں سائیکل رکشہ چلاتا ہے اور اس کے حالات بھی اچھے نہیں۔ سائیکل رکشہ والوں نے ہڑتال کر رکھی ہے اور اس کی روزی روٹی بند ہے۔ احتجاج کے دوران اسے سر پر ڈنڈا بھی پڑتا ہے، سو وہ زخمی بھی ہے۔ وہ بھی گم صم رہتا ہے۔ اس کے دوست دکھوں سے فرار کے لیے شراب پیتے ہیں اور وہ خود سگریٹ پھونکتا ہے۔ دوست اسے شراب پلاتے ہیں اور فرار کے ایک نئے طریقے سے متعارف کراتے ہیں۔
یہ تو ایک کنبے کی کہانی ہے لیکن گاوں والوں کی متوقع بے دخلی پر غور کرنے کے لیے ایک پنچایت بلائی گئی ہے، جہاں گاوں کے دیگر چہرے بھی نظر آتے ہیں۔ گرویندر سنگھ نے گاوں والوں کے چہرے بھی بڑے کلوز اینگل سے دکھائے ہیں۔ سردی کے دن ہیں اور یہ چہرے چادروں سے خود کو لپیٹے کسی گہری سوچ میں گم ہیں۔ پنجاب کے کسان کی کئی صدیوں کی داستان ایک ایک چہرے پر رقم ہے۔ کیمرہ ان چہروں پر رُکتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ دائیں یا بائیں چلنے لگتا ہے، جیسے اس پر بھی کسی گہرے صدمے کا بوجھ ہو۔
ان پر تاثر چہروں کی عکس بندی کے بعد بھی اگر کوئی کسر رہ گئی تھی تو وہ گرویندر سنگھ نے گاوں کی ٹوٹی پھوٹی معیشت اور معاشرت کو دکھا کر پوری کر دی۔
مٹی کا چولہا، لالٹین، گاوں کی چھوٹی چھوٹی ہٹیاں، چارہ کاٹنے والی سادہ مشین (ٹوکا)، کچی سڑکیں اور پکی اینٹوں سے بنی گلیاں، کچی دیواریں اور ان میں سے اُدھڑی ہوئی اینٹیں اور بے سُدھ بے جان پڑے کردار، یہ سب اس گاوں کا حقیقی نقشہ ہے، جو خود میں نے اپنے بچپن میں دیکھا۔ ان سب چیزوں کے پیچھے کھیت ہیں اور کھیتوں سے پیچھے پٹڑی، جس پر سفاکی سے چلنے والی ریل شہری تہذیب کے اس چیلنج کی نمایندگی کرتی ہے، جس کا سامنا کرنے کے لیے دیہات کے سادہ لوح اور آبائی دُکھوں کے مارے کسان شاید ابھی تیار نہیں۔
فلم میں پیشہ ور اداکاروں کے بجائے عام افراد سے کام لینے کا طریقہ ایرانی فلم سازوں نے بھی بہت کام یابی سے استعمال کیا ہے۔ تاہم کسی اور فلم کے عام چہروں سے ویسی یگانگت اور اپنائیت محسوس نہیں ہوتی، جیسی گروندر سنگھ کو ملے چہروں سے محسوس ہوتی ہے۔ یہ چہرے ہمارے ماضی کی بے لکھی کہانیاں تھے، جنھیں جیسا ہے، جہاں ہے کی بنیاد پر صرف ریکارڈ کر لینا ہی بہت اہم ہوتا۔
فن کا کام حقیقت کے کسی ایک ٹکڑے یا چند ٹکڑوں کو دکھانا ہے۔ یہ ایک کار ناتمام ہے اور فلم ''انھے گھوڑے دا دان‘‘ ناظرین کو سکھاتی ہے کہ انہیں اپنے فلم سازوں سے کس چیز کی توقع ہونی چاہیے۔ ہمارے ماضی و حال کی زندگی کی حقیقت کو پردہ ء اسکرین پر دکھانے کی توقع اور خواہش۔ اور یہ خواہش جتنی تگڑی ہو گی، ہمارے فلم ساز اتنی ہی توانائی سے اسے پورا کرنے کا جتن کریں گے۔