اوباما افغانستان کے غیراعلانیہ دورے پر
26 مئی 2014باراک اوباما اتوار کو رات گئے اچانک افغانستان کے بگرام ایئربیس پہنچے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکا میں آئندہ ویک اینڈ پر میموریل ڈے کی تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے اور اوباما کے اس دورے کا مقصد اسی تناظر میں افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنا تھا۔
تاہم ان کے چار گھنٹے کے اس دورے نے افغان صدر حامد کرزئی کے ساتھ تعلقات میں ایک اور تلخی کا اضافہ کر دیا ہے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان تعلقات پہلے سے ہی کشیدہ ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ اوباما نے بگرام ایئربیس پر ہی کرزئی کو ملاقات کی پیش کش کی تھی۔ انہوں نے کابل میں صدارتی محل نہ جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم حکام نے یہ نہیں بتایا کہ کرزئی کو اوباما کی آمد سے کتنی دیر قبل مطلع کیا گیا تھا۔
کرزئی نے ایک بیان میں اوباما کی جانب سے ملاقات کی پیش کش ردّ کر دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان صدارتی محل میں امریکی صدر کا پرتپاک استقبال کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اس کے حکام اوباما سے ملنے بگرام جانے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
اے ایف پی کے مطابق ایک امریکی اہلکار نے کابل حکومت کے ردِ عمل میں کہا: ’’ہمیں اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ آخری لمحات میں دی گئی دعوت کارگر ثابت نہیں ہو سکی۔‘‘
اوباما نے افغانستان کے دوسرے مرحلے میں مدمقابل دو امیدواروں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ سے ملاقات سے بھی احتراز کیا۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ اوباما ’انتخابی سیزن‘ پر اثر انداز ہونا نہیں چاہتے۔ افغانستان میں آئندہ ماہ صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے لیے ووٹنگ ہو گی۔
باراک اوباما مختصر قیام کے بعد اتوار کی رات ہی بگرام سے امریکا کے لیے روانہ ہو گئے۔ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ان کے آمد کی طرح واپسی کو بھی خفیہ رکھا گیا تھا۔
امریکا کی قیادت میں افغانستان میں نیٹو کے اکاون ہزار فوجی تعینات ہیں جن کا انخلاء رواں برس دسمبر تک طے ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک طویل اور مہنگی جنگ اپنے انجام کو پہنچ جائے گی جس کا مقصد ان باغیوں کو شکست دینا تھا جنہوں نے اقتدار سے اپنی بے دخلی کے بعد شدت پسندانہ کارروائیوں کا آغاز کر دیا تھا۔
غیرملکی فورسز کے انخلاء کے بعد امریکی فوجیوں کی محدود تعداد افغانستان میں قیام کر سکتی ہے جن کا کام مقامی فورسز کی تربیت اور انسدادِ دہشت گردی کے مشن کو چلانا ہو گا۔