اوباما امن کا نوبل ایوارڈ لینے اوسلو میں
10 دسمبر 2009رواں سال نو اکتوبر کوجب اوباما کے لئے نوبل انعام کا اعلان کیا گیا تو بیشتر مبصرین نے انتہائی حیرت کا اظہار کیا، بعض نے فیصلے کی ستائش کی جبکہ چند ایک نے تنقید بھرے ردعمل کا اظہار کیا۔
اوباما کے پیش رو جارج ڈبلیو بُش کو بعض حلقے ’’جنگی جنونی‘‘ تصور کرتے تھے۔ ایسے میں امریکہ کے نئے صدر بننے اور بیشتر عالمی امور پر مصالحانہ موقف کے عزم نے سیاہ فام اوباما کے لئے نوبل انعام کے حصول میں اہم کردار ادا کیا۔
اوسلو میں نوبل انعامات کی تقسیم کے موقع پر سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے ہیں۔ ناروے میں کرائے گئے ایک حالیہ جائزے میں بیشتر شہریوں نے اوباما کے لئے نوبل انعام کے فیصلے کو ’’غلط‘‘ قرار دیا۔ دوسری طرف، حال ہی میں ایک امریکی یونیورسٹی کے ایک جائزے کے مطابق بھی بہت سے امریکیوں کے بقول، اوباما امن کے عالمی انعام کے حقدار ہی نہیں ہیں۔ ناقدین کا ایک حلقہ اوباما کے حالیہ فیصلے سے ناخوش بھی ہے، جس کے تحت امریکی صدر نے مزید تیس ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا اعلان کردیا ہے۔
اس موضوع سے متعلق اوباما کے ترجمان رابرٹ گبس کا کہنا ہے کہ امریکی صدر نوبل انعام حاصل کرنے کے موقع پر افغانستان کے معاملے کا ذکر ضرور کریں گے۔ اطلاعات ہیں کہ انعام وصول کرنے کے بعد کی روایتی تقریر میں، اوباما ان تمام موضوعات کو چھیڑیں گے، جو حساس تصور کئے جاتے ہیں۔ امریکی صدر یہ باور کرانے کی کوشش کریں گے کہ افغانستان کے لئے مزید فوج بھیجنے کا فیصلہ دراصل قیام امن کو یقینی بنانے کے سلسلے کی ہی ایک کڑی ہے۔
ادھر امریکی فوج کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے کہا ہے کہ عراق کے مقابلے میں افغانستان میں عام شہریوں کی ہلاکت کے واقعات کم رونما ہوئے ہیں۔ ایک امریکی نشریاتی ادارے کو دئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ افغانستان میں سلامتی کی صورتحال بہتر ہونے میں ابھی مزید وقت درکار ہے۔
اوباما کا نام، امن کا نوبل انعام حاصل کرنے کے بعد، نیلسن منڈیلا، مدر ٹریسا اور آنگ سان سوچی کی فہرست میں شامل ہوجائے گا، جو ان سے قبل یہ انعام حاصل کرچکے ہیں۔ امریکی صدر نوبل انعام کے سلسلے کی تین روزہ طویل روایتی تقریبات میں شرکت کے بجائے محدود وقت تک ہی اوسلو میں رُکیں گے۔ بتایا گیا ہے کہ اوباما ’سی این این‘ کو اس موقع پر روایتی طور پر دئے جانے والے طویل انٹرویو کا حصہ بھی نہیں بنیں گے، تاکہ ’چُبھتے سوالات سے جان چھڑائی جاسکے۔‘
اوسلو میں امریکی صدر جس ہوٹل میں ٹھہریں گے وہاں مظاہروں کی تیاریاں بھی مکمل ہیں۔ ممکنہ احتجاجی مظاہروں کے شرکا ء اوباما کو امن کے نوبل انعام کا حقدار نہیں سمجھتے۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: گوہر نذیر گیلانی