اوباما اور میرکل کی ملاقات، ٹرمپ اور پوٹن کے بارے میں گفت گو
17 نومبر 2016دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ بات چیت یورپی رہنماؤں کے اجلاس سے قبل ہو رہی ہے۔ جمعے کو یورپی رہنما چانسلر میرکل اور صدر اوباما سے مل رہے ہیں۔
امریکی صدر اوباما اپنے دوسرے عہد صدارت کے آخری دورہء یورپ کے دوران جمعرات کے روز چانسلر میرکل سے ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کریں گے۔
اس سے قبل جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے گزشتہ شب ایک عشائیے پر بھی امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ تین گھنٹے طویل اس غیر رسمی ملاقات میں تازہ ترین بین الاقوامی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ تاہم اس بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
میرکل اور اوباما کے درمیان باقاعدہ ملاقات جرمن وقت کے مطابق آج سہ پہر سوا تین بجے چانسلر آفس میں ہو گی، جب کہ صدر اوباما دیگر یورپی رہنماؤں سے جمعے کے روز ملیں گے، جس دوران یوکرائنی تنازعے کے تناظر میں روس پر مزید پابندیوں کے نفاذ پر بات چیت کے علاوہ شامی شہر حلب میں روسی بمباری کے جواب میں مشترکہ ردعمل پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ دوسری جانب ماسکو حکومت کا کہنا ہے کہ وہ حلب میں باغیوں کے زیرقبضہ علاقوں پر بمباری میں وقفہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
امریکی صدر اوباما اس سے قبل میرکل کی تعریف کرتے ہوئے انہیں ایک ’بااعتبار ساتھی‘ قرار دے چکے ہیں، جب کہ اوباما نے مہاجرین کے بحران پر بھی میرکل کے موقف کو سراہا تھا۔ میرکل کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی انتخابات میں فتح پر مبارک باد دی گئی تھی، مگر ساتھ ہی میرکل نے ان سے یہ کہا تھا کہ کسی بھی قریبی تعاون کی بنیاد آزادی، جمہوریت اور انسانی وقار پر قائم ہونا چاہیے۔
ڈونلڈ ٹرمپ ایسے اشارے دے چکے ہیں کہ وہ روس کے ساتھ نئے سرے سے تعلقات قائم کر سکتے ہیں، اس سے روس کے خلاف عائد امریکی اور یورپی پابندیوں کے مستقبل پر بھی سوال کھڑے ہو رہے ہیں۔ ایک جرمن عہدیدار نے خبر رساں ادارے ڈی پی سے سے بات چیت میں کہا کہ روس کے خلاف عائد امریکی اور یورپی پابندیوں کی مدت جنوری میں ختم ہو رہی ہے اور اسی لیے صدر اوباما یورپی رہنماؤں کے ساتھ بات چیت میں ان پابندیوں میں توسیع کے موضوع پر بات چیت کر رہے ہیں۔
دوسری جانب یورپی رہنما بھی صدر اوباما سے اس بابت وضاحت چاہیں گے کہ مستقبل میں عالمی امور پر کس طرح واشنگٹن انتظامیہ اور برسلز مل کر کام کر سکیں گے۔ یورپی رہنماؤں کو خدشات ہیں کہ ماسکو حکومت جنوری میں ٹرمپ کے امریکی صدر کا عہدہ سنبھالنے تک کے وقت کو استعمال کر کے یوکرائن اور شام میں اپنی عسکری سرگرمیوں کو وسعت دے سکتی ہے۔