اوباما نے عراق میں فضائی حملوں کی اجازت دے دی
8 اگست 2014اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کی پرتشدد کارروائیوں کے تناظر میں امریکی صدر باراک اوباما نے عالمی وقت کے مطابق جمعے کو علی الصبح اعلان کیا کہ شمالی عراق میں اقلیتوں کی نسل کشی روکنے کی خاطر امریکی فضائیہ کو محدود حملے کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
اوباما نے کہا کہ امریکی فضائیہ نے ایسے عراقی شہریوں کو خوراک اور امدادی سامان پہنچانے کا آپریشن شروع کر دیا ہے، جو اسلام پسندوں کے خوف سے دور دراز علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ اوباما کا کہنا تھا کہ ایسی امدادی کارروائیوں میں خلل ڈالنے پر جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کی جائے گی۔
شمالی عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے سنی انتہا پسندوں کی پیشقدمی کی وجہ سے بالخصوص ایزدی آبادی محصور ہو کر رہ گئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق سنجار کے نواح میں ایک پہاڑی پر پناہ لینے والے ایسے افراد کے پاس نہ تو پانی ہے اور نہ ہی خوراک۔ اس صورتحال میں وہاں مبینہ طور پر چالیس بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ان شدت پسندوں نے قراقوش میں مسیحیوں کا بھی محاصرہ کیا ہوا ہے اور انہیں بھی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ بتایا گیا ہے کہ مسیحیوں کی ایک بڑی تعداد خود مختار کرد علاقے کی جانب فرار ہو چکی ہے۔
اس تناظر میں اوباما نے کہا، ’’ہم احتیاط اور ذمہ داری کے ساتھ کارروائی کر سکتے ہیں تاکہ نسل کشی کے ممکنہ خطرات کو ٹالا جا سکے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اگر امدادی کاموں کے لیے ضرورت پڑتی ہے تو شدت پسندوں کی طرف سے محاصرہ توڑنے کے لیے محدود فضائی کارروائی کی اجازت دے دی گئی ہے۔
امریکی صدر نے البتہ یہ نہیں بتایا کہ آیا ایسے فضائی حملے شروع کر دیے گئے ہیں۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ امریکی فضائیہ نے محصور اقلیتوں کو پانی اور خوراک پہنچانے کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ اوباما کے بقول، ’’رواں ہفتے کے آغاز پر متاثرہ علاقے کا ایک شخص چلایا تھا کہ عالمی برادری مدد کرنے کیوں نہیں آتیِ؟ تو آج میں اعلان کرتا ہوں کہ امریکا مدد کے لیے آ رہا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس ابتر صورتحال میں جب عراقی عوام اور حکومت مدد کے لیے پکار رہے ہیں تو ان آوازوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
2003ء میں اپنے پیش رو امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی طرف سے عراقی جنگ کا آغاز کرنے پر کھلے عام تنقید کرنے والے موجودہ صدر اوباما نے کہا کہ وہ عراق میں امریکی فوجی نہیں بھیج رہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ عراقی مسائل کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، اس لیے وہ بطور کمانڈر انچیف امریکا کو ایک نئی عراقی جنگ میں جھونکنا نہیں چاہتے۔
قبل ازیں جمعرات کے دن ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ عراقی حکومت اور عوام کی مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔ اطلاعات کے مطابق اسلامک اسٹیٹ کی بربریت کی وجہ سے ایک لاکھ مسیحی جبکہ ایزدی آبادی سے تعلق رکھنے والے پچاس ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق سنجار میں مجموعی طور پر دو لاکھ افراد مہاجرت اختیار کر چکے ہیں۔
عراق کے شمالی علاقوں پر قبضہ کر لینے والے مسلمان شدت پسندوں نے جعمرات کے دن عراق کے سب سے بڑے ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم پر بھی کنٹرول حاصل کرنے کا دعویٰ کیا۔ یوں مبینہ طور ان جہادیوں کو توانائی اور پانی کے وسیع تر ذخائر پر کنٹرول حاصل ہو گیا ہے۔
نیوز ایجنسی اے پی نے مقامی آبادی کے حوالے سے بتایا ہے کہ جنگجوؤں نے کرد فورسز کو پسپا کرتے اور موصل ڈیم کا کنٹرول سنبھالتے ہوئے متعدد افراد کو ہلاک بھی کر دیا۔ اطلاعات کے مطابق دو دن تک جاری رہنے والی اس لڑائی میں نوے افراد لقمہ اجل بنے۔
ادھر کرد فورسز کے مطابق اس ڈیم کے نواح میں لڑائی کا سلسلہ جاری ہے اور ابھی تک واضح نہیں ہے کہ اس کا کنٹرول کس کے پاس ہے۔ موصل ڈیم اسٹریٹیجک حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے اور یہ عراق میں پانی کی ترسیل کا ایک بڑا منبع ہے۔ ایسے خدشات بھی ہیں کہ جنگجو اس ڈیم سے پانی چھوڑ کر عراق میں سیلابی صورتحال پیدا کر سکتے ہیں۔ اس صورتحال میں بغداد کے بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔