اورماڑہ حملہ آوروں کے اڈے ایران میں تھے، پاکستان
20 اپریل 2019رواں ہفتے کے آغاز پر قریب 20 حملہ آوروں نے ایک بس سے 20 سکیورٹی اہلکاروں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ یہ افراد ایک بس کے ذریعے کوسٹل ہائے وے کے راستے کراچی جا رہے تھے جب کہ حملہ آور نے نیم فوجی دستوں کی ودریاں پہنچ رکھی تھیں۔
بلوچستان: چودہ افراد کو بس سے اتار کر گولی مار دی گئی
پاکستان نے چار مغوی ایرانی سکیورٹی اہلکار بازیاب کرا لیے
وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق پاکستان نے ’دہشت گردوں کے ٹھکانوں‘ سے متعلق تفصیلات ایران کے سپرد کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان افراد نے پاکستانی سرحد کے قریب ایرانی علاقوں میں تربیتی کیمپ بنا رکھے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں نیوی، فضائی اور کوسٹ گارڈز کے اہلکار شامل تھا۔
قریشی کے مطابق، ’’ہم نے قابل بھروسا شواہد ایرانی حکام کے سپرد کیے ہیں اور ان علاقوں کی نشان دہی بھی کی ہے، جہاں یہ تربیتی مراکز واقع ہیں۔‘‘
انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے ساؤدرن فرنٹیر کور قائم کی ہے، جس کا مرکزی دفتر تربت میں ہے تاکہ ایران کے ساتھ لگنے والی ساڑھے نو سو کلومیٹر طویل سرحد کی نگرانی کی جا سکے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایرانی سرحد کے ساتھ باڑ لگانے کا کام بھی جاری ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ بلوچستان کی سرحد افغانستان اور ایران کے ساتھ ملتی ہے اور یہ پاکستان کا رقبے کے اعتبار سے یہ سب سے بڑا صوبہ سب سے غریب ہے۔ یہاں اسلامی شدت پسندوں کے علاوہ مقامی بلوچ علیحدگی پسند بھی مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا، ’’ہم نے واضح طور پر اس حملے میں ملوث عناصر کی تفصیلات ایرانی حکام کے سپرد کی ہیں۔‘‘
قریشی نے مزید کہا، ’’پاکستان کو امید ہے کہ ایرانی حکام بلوچ دہشت گرد ٹھکانوں کے خلاف تیز رفتار کارروائی کریں گے۔‘‘
قریشی کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس معاملے پر اپنے ایرانی ہم منصب کے ساتھ گفت گو بھی کی ہے۔ ’’ہمیں یہ امید بھی ہے کہ ہمارے افغان بھائی بھی بلوچ دہشت گرد ٹھکانوں کے خلاف کارروائی کریں گے، کیوں کہ حملہ آوروں کے رابطے افغانستان کے ساتھ بھی تھے۔‘‘
قریشی نے بتایا کہ ایران کی جانب سے یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ تہران حکومت ان حملہ آوروں کو قانوں کے کٹہرے میں لانے میں پاکستان کی مدد کرے گی۔
واضح رہے کہ پاکستانی وزیراعظم عمران خان اتوار کے روز اپنے سرکاری دورے پر ایران بھی پہنچ رہے ہیں، جس میں اس معاملے پر بھی بات کی جائے گی اور ایسے حملوں کی روک تھام کے موضوع پر بھی تبادلہ خیال ہو گا۔
شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک نے امن کو یقینی بنانے کے لیے سرحد کی مشترکہ نگرانی پر اتفاق کیا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز سن 2004 سے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے خلاف بڑی کارروائیوں میں مصروف ہیں اور حقوقِ انسانی کی عالمی تنظمیں پاکستان پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کرتی ہیں۔ پاکستانی فوج ایسے الزامات کی تردید کرتی ہے۔
ع ت، ع ح (اے ایف پی، روئٹرز)