’اوہ‘ سفارتی سطح پر یہ کس نے سوچا تھا؟
رہنماؤں کے دیگر ممالک کے دورے انتہائی اہم سفارتی مشن کا حصہ ہوتے ہیں، مگر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی گڑ بڑ ہو جاتی ہے اور یہ گڑ بڑ پھر پوری دنیا دیکھتی ہے۔ یہ فہرست دیکھیے۔
جرمن چانسلر کے اعزاز میں ایسا گانا؟
جرمن چانسلر اپنی نہایت سنجیدہ طبیعت کی وجہ سے مشہور ہیں تاہم انہیں معلوم نہیں تھا کہ سینیگال کے سرکاری دورے کے دوران انہیں سلامی لیتے ہوئے، عام سے جرمن پاپ گانا کا سامنا ہو گا، جس میں وہ سنیں گی۔ ’’پیاری سی میڈ، تمہارے پاس میرے لیے وقت ہے؟‘‘ صدر ماکی سال خوش قسمت تھے کہ میرکل برہم نہیں ہوئیں۔
دھوپ میں یوں چھوڑ دیا؟
غیرملکی دوروں کے دوران سربراہان مملکت و حکومت کی بابت شرمندگی والے واقعات کی فہرست طویل ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ اور برطانیہ کے شاہی خاندان کی ملاقات میں ایسے کئی واقعات ہوئے۔ 2018ء میں ٹرمپ پروٹوکول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تاخیر سے پہنچے اور ملکہء برطانیہ کو 12 منٹ تک دھوپ میں انتظار کرنا پڑا۔
مے کا رقص
ٹیریزا مے کو بریگزٹ معاملے پر اپنے ملک میں تو تنقید کا سامنا ہے ہی، مگر ان کے دورہ جنوبی افریقہ کے دوران ایک اسکول میں مقامی گیتوں پر ان کا رقص ان پر شدید تنقید کا باعث بنا۔ برطانوی اخبارات میں تو انہیں ’مے بوٹ‘ تک پکارا گیا۔ کہا گیا کہ وہ رقص اس طرح کر رہی تھیں، جیسے کوئی روبوٹ ہو۔
تھوڑا سا فلرٹ تو چلتا ہے
فرانس کے انتہائی طرح دار قسم کے شہری بھی حماقت کرنے سے بچ نہیں سکتے۔ فرانسیسی صدر امانوئل ماکروں پر اس وقت تنقید ہوئی، جب انہوں نے ایک سرکاری دورے کے دوران آسٹریلوی وزیراعظم میکم ٹرن بل کی اہلیہ کو ’مزیدار‘ کہہ کر پکارا۔ یہ بات تاہم اہم ہے کہ فرانسیسی زبان میں ’ڈیلیشیے‘ کا لفظ ’ڈیلائٹ فل‘ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔
ٹروڈو کا ’خراب فیشن‘
سرکاری دوروں کو ’خراب‘ کرنے کی ایک وجہ ’برے لباس‘ کا انتخاب بھی ہو سکتا ہے۔ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو مارچ 2018 میں بھارت گئے، تو وہاں کی ثقافت کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے انہوں نے مقامی لباس پہنا۔ جس پر انہیں سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
خاتون اول کا ہاتھ کچھ زیادہ آگے بڑھ گیا
سابق امریکی صدر کی اہلیہ میشل اوباما نہایت دوستانہ طریقے سے ملکہ الزبتھ سے ملیں، مگر ان کا ہاتھ ملکہ کے شانوں پر بہت آگے بڑھ گیا۔ برطانوی ملکہ کو چھونا سختی سے منع ہے اور پروٹوکول کی یہ خلاف ورزی عالمی شہ سرخیوں کا باعث بنی۔
ایک ٹوپی جو بات کر رہی تھی
یہ تصویر خود بہت کچھ بتا رہی ہے۔ سن 1991ء میں جب ملکہء برطانیہ نے امریکا کا دورہ کیا، تو اس وقت تقریر کے لیے انہیں بش سینیئر کے ڈائس کا استعمال کرنا پڑا، تاہم بش سینیئر کے قد اور ملکہ برطانیہ کے قد میں بہت فرق تھا۔ وہاں موجود کسی اہلکار نے نہ مائیک نیچے کیا اور نہ ملکہ کو کسی طرح اوپر کیا جا سکا۔
شہزادہ فِلپ نہیں جانتے تھے؟
سن 1997ء میں جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل نے برطانیہ کا دورہ کیا تو ملکہ الزبتھ کے شوہر پرنس فِلپ نے ان سے ملتے وقت کہا، ’’ ہیلو ہیر رائش کانسلر‘‘ یعنی ہیلو سلطنت کے چانسلر۔ جرمن چانسلر کے لیے رائش کانسلر کا لفظ استعمال نہیں ہوتا بلکہ یہ نازیوں کے ’تھرڈ رائش‘ سے موسوم ہے۔
یہ درست قومی ترانہ نہیں ہے
سن 1995ء میں تب کے جرمن صدر رومان ہرسوگ برزایل گئے، تو وہاں جرمنی کے قومی ترانے کی بجائے مشرقی جرمنی کا قومی ترانہ بجا دیا گیا۔ اس وقت مشرقی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کو پانچ برس گزر چکے تھے۔
صدر صاحب، مائیک آن ہے
سن 2011ء میں جی ٹوئٹنی اجلاس کے موقع پر امریکی صدر باراک اوباما اور ان کے فرانسیسی ہم منصب نکولا سارکوزی اپنی نجی گفتگو میں اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کا مذاق اڑا رہے تھے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ مائیک آن ہے۔ سارکوزی نے کہا، ’’وہ جھوٹا ہے، میں اسے برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘ جس کے جواب میں اوباما نے کہا، ’’آپ اس سے تنگ ہیں اور مجھے آپ سے زیادہ اسے ڈیل کرنا پڑتا ہے۔‘‘