او آئی سی اجلاس میں شرکت، بھارتی اہداف کی راہ ہموار؟
2 مارچ 201957 اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے اجلاس میں بطور مہمان شرکت کرنے والی بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند مسلح تحریک کو عالمی دہشت گردی سے جوڑنے کی بھرپور کوشش کی، مگر انہوں نے اجلاس سے احتجاجاً غیر حاضر پاکستان کا نام لے کر دہشت گردی یا دہشت گردوں کی پشت پناہی کا الزام عائد نہیں کیا۔
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ متحدہ عرب امارات کو پاکستان کو آگاہ کیے بغیر ’او آئی سی‘ کا اجلاس نہیں بلانا چاہیے تھے۔ انہوں نے کہا، ’’یہ بنیادی بات ہے مگر ہمیں یہ بات ضرور مد نظر رکھنی چاہیے کہ یو اے ای کی بھارت میں بہت سرمایہ کاری ہے۔ بڑی تعداد میں بھارتی باشندے یو اے ای میں کام کرتے ہیں۔‘‘
خورشید محمود قصوری کے مطابق اب پاکستان کو او ائی سی کے قواعد ہ ضوابط واضح کروانے چاہییں۔ انہوں نے کہا کہ ترکی اور ایران نے بھی پاکستان کے موقف کی تائید کی ہے کیونکہ کشمیر میں مسلمانوں کا جس طرح قتل عام کیا جارہا ہے وہ قابل مذمت ہے۔
پاکستتانی کے سابق سیکرٹری خارجہ نجم الدین شیخ نے ڈوچے ویلے سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ ان کی ذاتی رائے میں پاکستان کو او آئی سی کے اجلاس میں شرکت ضرور کرنی چاہیے تھی اور بھرپور طریقے سے بھارتی مظالم کے حوالے سے آواز اٹھانی چاہیے تھی۔ ان کے بقول، ’’متحدہ عرب امارات کے ولی عہد کہتے ہیں کہ بھارت کو دعوت دے کر واپس لینا مشکل ہے۔ ہمارے ملک میں جمہوریت ہے۔ اگر پاکستانی پارلیمنٹ نے کوئی فیصلہ کیا ہے تو پھر اس کا احترام ہونا چاہیے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے اپنے مفادات ہیں، ’’وہ ہمارے تابع نہیں ہوسکتے، پاکستان میں دونوں ممالک کی سرمایہ کاری سے یہ تاثر نمایاں ہے کہ وہ خطے میں استحکام چاہتے ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں نجم الدین شیخ نے کہا، ’’دنیا دہشتگردی کے حوالے سے جو خیالات پاکستان سے متعلق رکھتی ہے، ہمیں اپنی ساکھ بہتر بنانے کے لیے اندرونی صورتحال کو بھی ٹھیک کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔‘‘
بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط کہتے ہیں کہ ہم مسلم امہ کے لیے ہر عالمی فورم پر آواز اٹھاتے ہیں، ’’مگر حالیہ پاک بھارت تنازعے میں ترکی کے سوا کھل کر کسی نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔‘‘ ان کا موقف ہے کہ متحدہ عرب امارات کو چاہیے تھا کہ بھارت کو ’او آئی سی‘ کے اجلاس میں مدعو کرنے سے پہلے پاکستان کو اعتماد میں لیتا۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی سفارت کاری میں کہیں نہ کہیں کوئی کمی رہ گئی ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری بھی او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کے حق میں تھے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ چونکہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں فیصلہ ہوا ہے لہٰذا وہ اسے تسلیم کرتے ہیں، مگر شرکت کر کے بھارت کو بھرپور جواب دیا جا سکتا تھا۔
مبصرین کے رائے میں بھی پاکستان نے اجلاس کا بائیکاٹ کر کے بھارت کو موقع فراہم کردیا ہے کہ وہ بغیر کسی مخالفت کے مسلم اقوام کے سامنے اپنا موقف رکھ سکے۔ بھارت بہت عرصے سے مسلم ممالک سے قربتیں بڑھانے کے لیے ’او آئی سی‘ میں شامل ہونے کی کوشش کررہا ہے لیکن ہر بار پاکستان اس کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوا مگر اس اجلاس کے بائیکاٹ نے مستقبل میں بھارت کے لیے راہ ہموار کردی ہے۔
ناقدین کہتے ہیں خطے میں بالخصوص سعودی عرب میں سکیورٹی صورتحال کے لیے ریاض حکومت پاکستان سے مدد چاہتی ہے اور اس معاملے پر پاکستان کے ساتھ بھی ہے لیکن جب کبھی معاملہ پاک بھارت تنازعہ کا ہو تو پھر سعودی عرب کی ترجیح بھارت ہی ہوتا ہے۔ اس کی واضح مثال سعودی وزیرخارجہ کا حالیہ دورے کا شیڈول ہے۔ انہیں منصوبے کے مطابق پہلے پاکستان آنا تھا لیکن اب وہ پہلے بھارت جائیں گے اور پھر پاکستان آئیں گے۔