ايشيا ذيا بيطس کی لپيٹ ميں
15 نومبر 2011گزشتہ عشروں کے دوران يہ بيماری مغربی ممالک میں عام تھی مگر اب یہ تیسری دنیا کے ملکوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ ايشيا ميں خاص طور پر چين اور بھارت اس کی زد ميں ہيں۔ چين ميں ذیابیطس کے مريضوں کی تعداد 92 ملين ہے، جو دنيا ميں سب سے زيادہ ہے۔ نئے جائزوں کے مطابق بھارت ميں اُن کی تعداد 51 ملين ہے۔ پاکستان میں بھی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور ان کی تعداد 10 ملین تک پہنچ چکی ہے۔
بھارت ميں ذيا بيطس يا عرف عام ميں شوگر کے نام سے مشہوربيماری کے مريض اپنے ڈاکٹروں کو بار بار ايک ہی کہانی سناتے ہيں، جو يہ ہے کہ بھارت کے بڑے شہروں مثلاً دہلی، ممبئی يا کولکتہ ميں دفتری ملازمت کے اوقات کچھ اس طرح کے ہيں کہ ملازمين کو کھیلوں اور صحتمند غذا کے ليے وقت نہيں مل پاتا۔ لوگوں کے پاس اتنا وقت ہی نہيں بچتا کہ وہ خريداری کر سکيں اور کھانا پکانے پر مناسب وقت صرف کر سکيں۔ ٹيليوژن، رسالوں يا اشتہارات ميں مسلسل پيزا يا برگر جيسے فاسٹ فوڈ کی پيشکشيں کی جاتی رہتی ہيں۔ کوکا کولا اس دوران بھارت ميں ايک طرح کا قومی مشروب بن چکا ہے، جس کے گھونٹ بھرنا cool اور ماڈرن سمجھا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھارت ميں اب موٹرکار سماجی مرتبے يا حيثيت کی علامت سمجھی جاتی ہے اور معاشرے ميں باحيثيت کہلائے جانے کے ليے کار کا ہونا لازمی بن گيا ہے۔ جہاں بھارت کی ديہی آبادی کو عام طور پر بہت سخت جسمانی مشقت کرنا پڑتی ہے، وہاں شہروں ميں بہت سے گھرانوں ميں گھريلو کام کرنے کے ليے ملازمائيں رکھی جاتی ہيں جو صفائی کرتی اور کھانا پکاتی ہيں۔
جرمن ذيا بيطس ايسوسی ايشن کے نائب چيئرمين پروفيسر ہيرمن فان ليليئن فيلڈ مستقبل کی ايک بہت تاريک تصوير پيش کرتے ہيں: ’’يہ بيماری پوری قومی معيشت کے ليے ايک بوجھ ہے۔ اس کے ساتھ ہی يہ بھی ذہن ميں رکھنا ہو گا کہ غريب ترين افراد کو ابھی تک پيٹ بھر کھانا ميسر نہيں ہے۔ درحقيقت آبادی کا ايک بڑا حصہ ابھی تک کافی غذا سے محروم ہے۔ شوگر کی بيماری ميں وہی لوگ مبتلا ہو رہے ہيں، جو اپنی غذائی عادات اور طرز زندگی ميں مغربی انداز کو اپنا رہے ہيں۔ اس کے مقابلے کے ليے نظام صحت کو بھی ساتھ ساتھ ترقی دينا ہوگی۔ ليکن اس بارے ميں شک بالکل بجا ہوگا کيونکہ يہ ايک ترقی پذير ملک کے امکانات سے باہر ہوگا۔ يہ ايک بہت بڑا مسئلہ ہے۔‘‘
پچھلے برسوں کے دوران بھارتی اقتصادی نمو کی شرح اوسطاً آٹھ فيصد رہی ہے۔ 20 برسوں ميں اُس کی فی کس آمدنی چار گنا ہو گئی ہے۔ اگر اگلے برسوں کے دوران پوری کی پوری نسلوں کے مواقع ذيابيطس جيسی بيماريوں کے ہاتھوں تباہ ہو گئے تو يہ ساری ترقی نيست و نابود ہو جائے گی۔
خاص طور پر جوان نسل خطرے ميں ہے۔ بھارت ميں شوگر کے مريضوں کی اوسط عمر 42.5 سال ہے جبکہ مغربی ممالک ميں عام طور پراس سے کہيں زيادہ عمر والوں ميں ذيا بيطس کا مرض ملتا ہے۔ ايک ارب سے بھی زيادہ آبادی والے بھارت ميں علاج کا بيمہ اب بھی ايک خواب ہے۔ بھارت کے صحت و علاج کے امور کے مشير، نئی دہلی کے ڈاکٹر اگروال جو کئی انعام بھی حاصل کر چکے ہيں کہتے ہيں: ’’اگر ذيا بيطس ايک وبا کی طرح پھيلتی رہی تو بھارت ميں اندھوں، دل کے مريضوں اور اعضاء کاٹ ديے جانے کے باعث معذور ہو جانے والے مريضوں کی تعداد دنيا بھر ميں سب سے زيادہ ہو جائے گی۔ افسوس ہے کہ ابھی تک شکر کے مرض کو کنٹرول کرنے کا کوئی منصوبہ نہيں ہے۔‘‘ بھارتی حکومت نے صحت و علاج کے ليے رکھی جانے والی رقم کو مجموعی قومی پيداوار کے ايک فيصد سے بھی کم سے بڑھا کر تين فيصد کر دينے کا اعلان کيا ہے۔
بھارت جيسے ملک ميں بينائی يا کسی کاٹے جانے والے عضو سے محروم ہونے کا مطلب مريض کا عزت و وقار سے محروم ہونا بھی ہوتا ہے۔
رپورٹ: پريا ايسل بورن / شہاب احمد صديقی
ادارت: حماد کيانی