1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئی ایس آئی کو شہریوں کی نگرانی کی اجازت ’آئین کے منافی‘

11 جولائی 2024

قانونی ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ حکومتی اقدام شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی بھی ہے۔

https://p.dw.com/p/4i9UA
پاکستانی فوج کے زیر انتظام خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کو ملک میں عام شہریوں کی ٹیلی فون کالز اور میسجز ٹیپ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے
پاکستانی فوج کے زیر انتظام خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کو ملک میں عام شہریوں کی ٹیلی فون کالز اور میسجز ٹیپ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہےتصویر: Silas Stein/imago images

پاکستانی فوج کے زیر انتظام خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کو ملک میں عام شہریوں کی ٹیلی فون کالز اور میسجز ٹیپ کرنے کی حالیہ اجازت پر مختلف حلقوں کی جانب سے تنقید کی جا رہی ہے، جن کا کہنا ہے کہ یہ حکومتی اقدام  شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اور آئین کے منافی ہے۔

یہ اختیار آئی ایس آئی کو ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ 1996 کی شق 54/1 کے تحت دیا گیا ہے اور اس حوالے سے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت "قومی سلامتی کے مفاد اور کسی بھی جرم کے اندیشے سے نمٹنے کے لیے" افسران کو کالز اور پیغامات انٹرسیپٹ کرنے اور کسی بھی ٹیلی کام سسٹم کے ذریعے کالز ٹریس کرنے کا اختیار تفویض کرتی ہے۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے قائم ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی شریک چیئرپرسن منیزے جہانگیر نے اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''یہ خلاف ورزی ہے، آئین کے آرٹیکل چودہ کی، جو ہر شہری کو پرائیویسی کا حق دیتا ہے۔ اور یہ پاکستانی عوام کے بنیادی حقوق کے بھی منافی ہے۔‘‘

پاکستانی آئین کے آرٹیکل چودہ کے تحت پرائیویسی کسی بھی شہری کا بنیادی حق ہے۔ علاوہ ازیں، گزشتہ عدالتی فیصلوں میں بھی کہا گیا ہے کہ فون کالز اور پیغامات ٹیپ کرنا شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

اس حوالے سے منیزے جہانگیر نے مزید کہا، ''بجائے اس کے کہ حکومت ملکی خفیہ اداروں کو روکتی کہ وہ عام شہریوں کی جاسوسی کیوں کر رہے ہیں، حکومت الٹا ان کی ایسی سرگرمیوں کو قانونی تحفظ دے رہی ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا، ''ہمیں تو امید تھی کہ نئی حکومت آئے گی، تو جمہوری عمل مضبوط ہو گا۔ لیکن یہاں تو سکیورٹی اسٹیٹ بنائی جا رہی ہے، جس میں شہریوں کے بنیادی حقوق پاؤں تلے روندے جا رہے ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا ہے کہ بابر ستار نے ہائی کورٹ میں ایک کیس میں پوچھا تھا: 'آپ کس قانون کے تحت یہ نگرانی کرتے ہیں؟‘ تو انہوں (حکومت) نے اس نگرانی کو لیگل کور دینے کے لیے یہ اقدام کیا ہے۔‘‘

پاکستانی فوج کے زیر انتظام خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کو ملک میں عام شہریوں کی ٹیلی فون کالز اور میسجز ٹیپ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے
پاکستانی فوج کے زیر انتظام خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کو ملک میں عام شہریوں کی ٹیلی فون کالز اور میسجز ٹیپ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہےتصویر: Kacper Pempel/REUTERS

'بلاتخصیص جاسوسی'

اسی طرح اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ترجمان رؤٖف حسن نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کے دوران کہا کہ وہ ''بلاتخصیص جاسوسی‘‘ کے اس اجازت نامے کی مذمت کرتے ہیں اور اس حکومتی اقدام کو فی الفور کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

بقول رؤف حسن، ''ملک میں مخصوص حلقوں کی طرف سے آڈیو اور ویڈیو  لیکس کی غیر قانونی سرگرمیوں کے آگے بند باندھنا پہلے ہی بہت مشکل کام تھا۔ اب نگرانی کی نئی عمومی اجازت کے بعد کسی شریف شہری کی نجی زندگی بھی ریاستی اداروں کے اہلکاروں سے بچی نہیں رہے گی۔‘‘

پاکستان میں ویڈیو اور آڈیو لیکس کی تاریخ

ان کا کہنا تھا، ''جس نام نہاد قومی سلامتی کی آڑ میں ریاستی ایجنسیوں کو یہ ماورائے آئین اختیارات دیے گئے ہیں، ان کے ذریعے تو ملک کو جیسے جنگل کے قانون کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔‘‘

'ریاست اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھ جائیں گے'

خواتین کے حقوق کی کارکن فرزانہ باری کے خیال میں ''حکومت کا یہ اقدام بالکل غلط ہے، کیونکہ ریاست اگر انہی کاموں میں لگی رہے، تو اصل عوامی مسائل کے حل پر توجہ کون دے گا؟ ڈیجیٹل پیغامات اور فون کالز تک کی سطح پر ایسی نگرانی ریاست اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھا دے گی۔‘‘

اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا،  ''ویسے بھی جس بات کو اس اقدام کا سبب قرار دیا جا رہا ہے، وہ تو ریاست کی اپنی اہلیت ہونا چاہیے۔ کہ وہ خود دہشت گردوں اور شدت پسند گروہوں کو قابو کرے، نہ کہ اس کے لیے ہر شہری کے بنیادی حقوق کی نفی کی جائے۔‘‘

'نوٹیفیکیشن کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان'

اسلام آباد ہائی کورٹ کے وکیل آفتاب عالم کا اس بارے میں کہنا تھا، ''عدالتی فیصلوں سے متصادم ہونے کی وجہ سے اس حکومتی نوٹیفیکیشن کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ جب تک واضح اصول اور نگرانی کا ایسا انتظام نہیں ہو گا، جو شفاف ہو اور جس پر پہلے سے عوامی مشاورت ہو چکی ہو، تب تک تو کوئی بھی عدالت اس نوٹیفیکیشن کو غیر قانونی قرار دے سکتی ہے۔‘‘

انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کے دوران کہا،''نجی محفلوں میں کی گئی باتیں حکومتوں کا مسئلہ نہیں ہونا چاہییں۔ ایسی باتوں کا تعلق تو اظہار رائے کے اس حق سے ہوتا ہے، جس کی آئین میں باقاعدہ ضمانت دی گئی ہے۔‘‘

پاکستانی فوج کے زیر انتظام خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کو ملک میں عام شہریوں کی ٹیلی فون کالز اور میسجز ٹیپ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے
پاکستانی فوج کے زیر انتظام خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کو ملک میں عام شہریوں کی ٹیلی فون کالز اور میسجز ٹیپ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہےتصویر: allOver-MEV/IMAGO

کیا ریاست اپنے ہی شہریوں سے خوفزدہ ہے؟

اسلام آباد کے ایک شہری حشام احمد نے بھی اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''بات بات پر ریاست کا شہریوں کے آئینی حقوق کے احترام میں میں استثنائی صورتحال پیدا کرنا ناقابل قبول ہے۔ اس سے تاثر ملتا ہے کہ جیسے ریاست اپنے ہی شہریوں سے خوفزدہ ہے۔ کوئی بھی ریاست اگر بالعموم اپنے شہریوں پر شبہ کرنے لگے، تو عوام اس ریاست پر اعتماد کیسے کر سکتے ہیں؟‘‘

حشام احمد کے مطابق حالیہ سرکاری نوٹیفیکیشن کے پس منظر میں "قومی سلامتی کے اداروں کا یہ نقطہ نظر کہ ایک خاص سیاسی جماعت کا ان سے اختلاف رائے ڈیجیٹل دہشت گردی کے مترادف ہے، اس لیے ناقابل قبول ہے کہ اختلاف رائے اور اظہار رائے کے بنیادی حق کو کسی سنگین جرم کے مترادف قرار دینا تو خود قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دینا ہے۔ اس طرح تو ریاست اور عوام کو آمنے سامنے کھڑا کیا جا رہا ہے، حالانکہ اب بد اعتمادی کو ہوا دینے کے بجائے اعتماد سازی کی ضرورت ہے۔‘‘

حکومتی موقف

دوسری جانب عوامی اور اپوزیشن کے سیاسی حلقوں کی شدید تنقید کے باوجود حکومت اپنے موقف پر قائم ہے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم تارڑ کے مطابق  یہ آئی ایس آئی کو یہ اختیار کسی نئے قانون کے تحت نہیں دیا گیا ہے، بلکہ ٹیلی کمیونیکیشن ایکٹ 1996 نامی یہ قانون تو گزشتہ اٹھائیس برس سے لاگو ہے۔

اس ہفتے قومی اسمبلی میں ان کا کہنا تھا کہ نہ صرف پاکستان، بلکہ کئی دیگر ممالک میں بھی ایسے قوانین موجود ہیں۔

وفاقی وزیر قانون کے مطابق یہ قانون قومی سلامتی کے مفاد میں ہے اور اس قانون کو عملاﹰ استعمال کرتے ہوئے عام شہریوں کی نجی زندگی اور ان کی پرائیویسی کے تحفظ کا خیال رکھا جائے گا اور قانون کا غلط استعمال کرنے والوں کے خلاف کارروائی بھی کی جائے گی۔