'آرمی کے نظام عدل میں تضادات ہیں' وکیل صفائی
4 اپریل 2011جنرل پرویز مشرف پر 14 اور 25 دسمبر 2003ء کو دو قاتلانہ حملے کیے گئے تھے، جن کے الزام میں کل 16 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے آٹھ ملزمان پر الزام تھا کہ انہوں نے 14 دسمبر کو راولپنڈی کے علاقے جھنڈا چیچی میں ایک پل کو اس وقت دھماکے سے اڑا دیا تھا جب جنرل مشرف کا قافلہ وہاں سے گزر رہا تھا۔ اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا جبکہ دیگر 8 ملزمان پر جھنڈا چیچی کے نزدیک ہی دو مختلف پٹرول پمپس سے جنرل مشرف کے کانوائے پر خودکش حملوں کا الزام ہے۔ ان حملوں میں جنرل مشرف تو محفوظ رہے لیکن خودکش حملہ آوروں سمیت 12 افراد مارے گئے تھے۔
گرفتار ملزمان میں سے دو کا تعلق آرمی، چھ کا ایئرفورس سے جبکہ باقی سویلین تھے۔ ان سویلین افراد میں سے ایک ملزم اخلاص اخلاق کی والدہ کا دعویٰ ہے کہ ان کا بیٹا روسی شہریت رکھتا ہے۔ گرفتار ملزمان میں سے ایک سپاہی اسلام صدیقی کو2005ء میں ملتان جیل میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ ایئرفورس سے ہی تعلق رکھنے والے سینئر ٹیک کرم دین اور جونیئر ٹیک نصراللہ کو عمر قید جبکہ ایک سویلین عدنان خان کو 10 سال قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔
موت کی سزا پانے والے 12 ملزمان میں آرمی کے نائیک ارشد محمود کے علاوہ ایئرفورس کے چیف ٹیکنیشن خالد محمود، کاپر ٹیک نوازش علی، جونیئر ٹیک نیاز محمد، جونیئرٹیک عدنان رشید اور سویلین افراد میں مشتاق احمد، زبیر احمد، راشد قریشی، غلام سرور بھٹی، اخلاص اخلاق، عدنان خان، عامر سہیل اور رانا نوید شامل ہیں۔
ملزمان کے وکیل کرنل ریٹائرڈ اکرم کا کہنا ہے کہ ان کے مؤکلان کو فوجی عدالت میں کارروائی کے دوران اپنی صفائی کا موقع مہیا نہیں کیا گیا: "ہمیں کسی بھی فورم پر مناسب طریقے سے نہیں سنا گیا"۔
کرنل اکرم کے مطابق آرمی کے نظام عدل میں تضادات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنزل مشرف نے چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے اسلام صدیقی کو سزائے موت دینے کی منظوری دی۔ اس کے بعد ملزم کو سپریم کورٹ اپیل کرنا تھی اور اس کے بعد صدر کو معافی کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔ لیکن فوجی عدالت نے جنرل مشرف کی بطور آرمی چیف سزائے موت کی منظوری کو صدر مملکت کی منظوری سے تعبیر کیا۔
کرنل اکرام کے مطابق اگر آرمی چیف کسی کی سزائے موت منظور کرے تو اس کے خلاف آرمی کورٹ میں اپیل کی سماعت آرمی آفیسر کرتا ہے جو کہ خود آرمی چیف کے ماتحت ہوتا ہے۔ ادھر ان گرفتار ملزمان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ صدر زرداری ان کے پیاروں کی سزائے موت معاف کریں اور چیف جسٹس سپریم کورٹ ذوالفقار علی بھٹو کیس کی طرح جنرل مشرف پر حملے کے ملزمان کے مقدمے کی بھی از سر نو سماعت کریں۔ ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا ہے: "شفاف سماعت پر ملزم کا حق ہے اور جنرل مشرف پر حملہ کرنے کے الزام میں گرفتار ملزمان کو بھی یہ حق ملنا چاہیے"۔
جنرل مشرف پر حملے کے الزام میں ہی نوکری سے برطرف کیے گئے پاک فضائیہ کے سابق چیف ٹیک تنویر اقبال کا کہنا ہے:" آرمی کورٹس میں فیئر ٹرائل نہیں ہوتا، صرف تشدد اور دھمکی کے ذریعے بات منوائی جاتی ہے۔"
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں سزائے موت کی شرح کافی زیادہ ہے۔ اسی سبب انسانی حقوق کی تنظیمیں پاکستان میں پھانسی کی سزا کے خاتمے کے لیے بھی آواز اٹھاتی رہی ہیں۔ موجودہ کابینہ میں بھی یہ معاملہ زیر بحث آیا لیکن ابھی تک اس حوالے سے قانون سازی کا فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: افسراعوان