آڈیو لیکس: پاکستانی سیاست دانوں کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش؟
4 اکتوبر 2022پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے معاونین کے مابین ہونے والی مبینہ گفتگو کی لیک ہونے والی متعدد ریکارڈنگز کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے اس امر کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ ان ریکارڈنگز میں عمران خان پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے عہدیداروں سے کہتے سنائی دیتے ہیں کہ وہ مبینہ طور پر 'امریکہ کی جانب سے حکومت کی تبدیلی‘ کی سفارت کاری کے ذریعے کوششوں کے ساتھ باقاعدہ حکمت عملی سے نمٹیں۔
اشتہارات کے حوالے سے مریم نواز کا اعتراف موضوع بحث
اپریل میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے پاس ایک 'خط‘ ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ واشنگٹن انہیں اقتدار سے بے دخل کروانے کی کوشش میں ملوث ہے۔ عمران خان کو بعد ازاں پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے ذریعے وزارت عظمیٰ کے عہدے سے الگ کر دیا گیا تھا۔ عمران خان نے امریکہ پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ'ایک آزادانہ خارجہ پالیسی‘ کو فروغ دینے کے لیے انہیں 'سزا‘ دے رہا تھا۔
بدھ کے روز منظر عام پر آنے والی پہلے آڈیو لیک میں، ایک ایسی آواز میں جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ عمران خان کی ہے، یہ کہتے ہوئے سنا گیا تھا، ''ہمیں صرف اس (سائفر) کے ساتھ 'کھیلنا‘ ہے۔ ہمیں(کسی بھی ملک) کا نام لینے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کا کہنا ہے کہ عمران خان کی جانب سے 'غیر ملکی سازش‘ کا دعویٰ محض پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات کو ہوا دینے اور اپنے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار کے دوران اپنی شدید 'نااہلی‘ سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے۔
لیکن عمران خان وہ واحد سرکردہ پاکستانی سیاست دان نہیں ہیں، جن کی مبینہ آڈیوز عوامی سطح پر لیک ہوئی ہیں۔ گزشتہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف کی ایک مبینہ آڈیو ریکارڈنگ بھی منظر عام پر آئی تھی۔ اس آڈیو کلپ میں شہباز شریف کو اپنے ایک رشتہ دار کو بجلی کے منصوبے کی الاٹمنٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے سنا جا سکتا ہے اور دوسرے کلپ میں ان کی بھتیجی مریم نواز مبینہ طور پر ان سے درخواست کر رہی تھیں کہ وہ سابق حکومت کی جانب سے شروع کیے گئے صحت عامہ کے منصوبے 'صحت کارڈ‘ کا خاتمہ کر دیں۔
سیاست دانوں کو بدنام کرنے کی مہم؟
اگرچہ عمران خان اور شہباز شریف ایک دوسرے پر آڈیو لیکس کے الزامات لگاتے رہے ہیں لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان آڈیو لیکس نے اپوزیشن اور حکومت دونوں کو یکساں طور پر بدنام کیا ہے۔ پاکستانی عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ سیاست دان ہر جائز و ناجائز طریقے سے صرف اقتدار حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ 'آڈیو لیک‘ اسکینڈل نے اس خیال کو کسی حد تک تقویت بخشی ہے۔
کراچی میں مقیم سیاسی تجزیہ کار توصیف احمد خان کا خیال ہے کہ یہ لیکس سیاست دانوں کو غلط انداز میں دکھانے کی کوشش ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ان (آڈیو لیکس) سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ تمام سیاست دان بدعنوان، خود غرض اور نااہل ہیں۔‘‘ لیکن کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آڈیو لیکس سیاست دانوں کی ساکھ خراب کرنے کی ایک منظم کوشش معلوم ہوتی ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک عہدیدار جمشید اقبال چیمہ کا خیال ہے کہ یہ لیکس ان لوگوں کا کام ہے جو'منتخب رہنماؤں کی مقبولیت سے خوفزدہ ہیں‘۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''وہ (پاکستان میں) ایک مقبول سیاست دان نہیں چاہتے۔‘‘ لیکن یہ 'وہ‘ کون ہیں، جن کا ذکر جمشید چیمہ نے کیا؟
پاکستان میں ویڈیو اور آڈیو لیکس کی تاریخ
غیر جمہوری قوتیں اور لیکس سے وابستہ مفادات
کچھ لوگوں کا الزام ہے کہ 'آڈیو لیکس‘ مہم کے پیچھے پاکستان کی طاقت ور فوج کا ہاتھ ہے۔ سابق رکن قومی اسمبلی اور پاکستانی فوج کی ایک ناقد بشریٰ گوہر کا کہنا ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ سیاست دانوں کے فون ہیک کیے گئے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میں نے پارلیمنٹ میں سیاست دانوں کی غیر قانونی فون ٹیپنگ کا معاملہ اٹھایا تھا۔‘‘ انہوں نے الزام لگایا کہ خفیہ ریکارڈنگز کو انٹیلیجنس ایجنسیاں سیاست دانوں کو بلیک میل کرنے اور سویلین حکومتوں کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ''یہ ایک سنگین معاملہ ہے کہ وزیر اعظم کا دفتر بھی کسی بھی طرح کی سکیورٹی میٹنگ کے لیے محفوظ نہیں ہے۔ آڈیوز کے مندرجات پر عوامی سطح پر تبادلہ خیال کیا جارہا ہے لیکن کوئی بھی ان ریکارڈنگز کی غیر قانونی حیثیت پر سوال نہیں اٹھا رہا۔‘‘
تجزیہ کار توصیف احمد خان کا خیال ہے کہ آڈیو لیکس کا رجحان پاکستانی جمہوریت کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے کیونکہ اس سے 'اسلامی سیاسی جماعتوں کے لیے مزید جگہ پیدا ہو گی۔ یہ سلسلہ اس وقت تک نہیں رکے گا جب تک تمام سیاست دان غیر جمہوری قوتوں کے خلاف متحد نہیں ہو جاتے۔ سیاست دانوں کو اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ دینا چاہیے۔ چاہے وہ عمران خان ہوں یا شریف خاندان، سبھی سیاست دانوں کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔‘‘
کیا فوج پر تنقید جائز ہے؟
عمران خان اور موجودہ حکومت کے درمیان رسہ کشی اس وقت اتنی شدید ہے کہ اس بات کا امکان نہیں کہ وہ آڈیو لیکس اسکینڈل سے نمٹنے کے لیے ایک دوسرے سے ہاتھ ملائیں گے۔ کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق سیاست دانوں کو ہر وقت فوج پر انگلیاں اٹھانے کے بجائے پہلے اپنے اعمال کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ جنرل اور دفاعی تجزیہ کار اعجاز اعوان نے آڈیو لیکس میں فوج کے ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ عناصر اسے فوج کے ساتھ اپنا 'حساب برابر کرنے‘ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا، ''یہ لیکس حکومت کی نااہلی کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ یہ اس وقت بھی ہوا جب نواز شریف (2013-2017) وزیر اعظم تھے۔ اگر ان کی حکومت نے اس وقت کوئی کارروائی کی ہوتی تو آج ایسا دوبارہ نہ ہوتا۔‘‘ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں فوج کو بدنام کرنا معمول بن چکا ہے۔
ایس خان (اسلام آباد)