اٹھارہویں ترمیم کا بل پاکستانی پارلیمنٹ میں
7 اپریل 2010مرکز میں قائم پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کابینہ کے اس خصوصی اجلاس کی صدارت کی، جس میں مجوزہ آئینی ترمیم کی منظوری دی گئی۔ اٹھارہویں ترمیم کے مسودے کو پارٹی کے ایک لیڈر سینیٹر رضا ربانی کی سربراہی میں قائم کردہ کمیٹی کی جانب سے تقریباً دو سال کی محنت کے بعد تیار کیا گیا ہے۔ اس مجوزہ ترمیم کو کابینہ کی طرف سے منظوری کے بعد اب پاکستانی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں، قومی اسمبلی میں بحث کے لئے پیش کر دیا گیا ہے۔
قومی اسمبلی میں مجوزہ دستوری ترمیم کو پیش کرنے کا اعزاز رضا ربانی کو حاصل ہوا اور اس پر ایوان میں بحث کا آغاز وزیر اعظم کی جانب سے کیا گیا۔ وزیر اعظم گیلانی نے اپنی تقریر میں ایک بار پھر اس عزم کا اظہار کیا کہ ان کی حکومت اقتدار میں طوالت کے بجائے ریاستی اداروں کے استحکام کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھے گی۔
اٹھارہویں ترمیم کے منظور ہو جانے کے بعد پاکستان کے آئین سے جہاں جنرل پرویز مشرف کی متعارف کردہ ترمیم کا خاتمہ ہو جائے گا، وہیں جنرل ضیاء الحق کی جانب سے ان کے دور میں منظور کردہ ترمیم کی روشنی میں، جس کے بعد ان کا نام دستور پاکستان میں شامل ہو گیا تھا، وہ بھی حذف ہو جائے گا۔ اس ترمیم میں اس شق کی شمولیت پر جنرل ضیا الحق کے سیاستدان صاحبزادے اعجاز الحق نے تنقید بھی کی ہے۔
امید کی جا رہی ہے کہ بل پر اگلے دو تین دنوں میں سیاسی جماعتوں کے اراکین اپنی اپنی معروضات پیش کریں گے اور جمعہ کے روز قومی اسمبلی میں اس بل کی منظوری کا امکان ہے۔ بل کی شق وار منظوری کا عمل جمعرات کی شام سے شروع ہو سکتا ہے۔ سینیٹ سے منظوری کے بعد پاکستانی صدر کی جانب سے اس بل کی حتمی توثیق کے بعد یہ پاکستانی دستور کا حصہ بن جائے گی۔
اس بل میں ججوں کی تعیناتی کے حوالے سے خاصی اہم شق شامل کی گئی ہے۔ اس شق کے تحت اب ججوں کی تعیناتی ایک کمیشن کے توسط سے کی جائے گی۔ اس کے علاوہ پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبے کا نام خیبر پختونخوا تجویز کیا گیا ہے۔ اس نام پر سرحدی صوبے کے پٹھان پہلے ہی حالت جشن میں ہیں اور ایسی ہی ایک جشن والی ریلی کو تیمر گڑہ علاقے میں دہشت گردی کا نشانہ بھی بننا پڑا تھا۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت : مقبول ملک