تیل پر پابندی لگی تو گیس کی سپلائی بھی منقطع ہو سکتی ہے، روس
8 مارچ 2022روس کے نائب وزیر اعظم الیگزینڈر نوواک کا کہنا ہے کہ ''روسی تیل کو مسترد کرنا عالمی منڈی کے لیے تباہ کن ثابت ہو گا'' اور اس کی وجہ سے قیمتیں دوگنی سے بھی زائد یعنی تقریبا ً300 ڈالر فی بیرل تک پہنچ جائیں گی۔
امریکہ یوکرین پر حملے کے لیے روس کو بطور سزا اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ممکنہ حد تک اس پر پابندیاں عائد کرنے کے راستے تلاش کر رہا ہے اور اس نے روس سے تیل کی درآمدات پر بھی پابندی کی تجویز پیش کی ہے۔ تاہم جرمنی اور ہالینڈ نے پیر کے روز اس منصوبے کو مسترد کر دیا۔
یورپی یونین کے ممالک اپنی قدرتی گیس کا تقریباً 40 فیصد اور اپنے تیل کا تقریباً 30 فیصد روس سے حاصل کرتے ہیں اور اگر اس سپلائی میں اچانک خلل پڑ جائے تو اس کے پاس فی الوقت کوئی آسان متبادل نہیں ہے۔
روس کی جوابی کارروائی کی دھمکی
روس کے سرکاری ٹیلی ویژن پر ایک خطاب کے دوران الیگزینڈر نوواک نے کہا، '' فوری طور یورپی مارکیٹ میں روسی تیل کا متبادل تلاش کرنا ایک ناممکن سی بات ہو گی۔ اس میں برسوں لگ سکتے ہیں اور تب بھی یہ یورپی صارفین کے لیے بہت زیادہ مہنگا ہو گا۔ بالآخر، اس سے سب سے زیادہ نقصان انہیں کو پہنچے گا۔''
جرمنی اور روس کے درمیان زیر تعمیر ایک نئی گیس پائپ لائن نارتھ اسٹریم 2 تیار ہو رہی ہے جسے جرمنی نے گزشتہ ماہ روکنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے روسی رہنما نے کہا کہ تیل پر پابندیوں کے خلاف جوابی کارروائی بھی ہو سکتی ہے۔
روس کے نائب وزیر اعظم نے کہا، ''ہمیں اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ ہم بھی انہیں کی طرح جوابی فیصلہ کریں اور (موجودہ) نارتھ اسٹریم 1 گیس پائپ لائن سے یورپ کو جو گیس فراہم کی جا رہی ہے اس پر پابندی عائد کر دیں۔''
یورپ کی پریشانی
جرمنی، برطانیہ اور ہالینڈ کے رہنماؤں نے پیر کے روز کہا کہ یورپی ممالک روسی توانائی کی سپلائی پر بہت زیادہ انحصار کر رہے ہیں اس لیے یورپ کے لیے راتوں رات درآمدات کو یکسر روک دینا ممکن نہیں ہے۔
جرمن چانسلر اولاف شولس کا کہنا تھا کہ گرچہ برلن نے ماسکو کے خلاف سخت اقدامات کی حمایت کی ہے تاہم یورپ میں روزمرہ کی زندگی کے لیے روس کی توانائی کی فراہمی ''ضروری'' ہے۔ انہوں نے کہا، ''فی الوقت یورپ میں حرارت، نقل و حرکت، بجلی کی فراہمی اور صنعت کے لیے توانائی کی سپلائی کسی دوسرے طریقے سے محفوظ نہیں کی جا سکتی۔''
جرمن چانسلر کا کہنا تھا کہ جرمنی اور یورپی یونین میں اس کے شراکت دار کافی وقت سے روسی توانائی کا متبادل تلاش کرنے کے لیے رفتار سے کام کر رہے ہیں۔ ''تاہم، یہ راتوں رات نہیں کیا جا سکتا۔''
حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، روس جرمنی کو قدرتی گیس فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، جو اس وقت ان درآمدات کا 38 فیصد فراہم کرتا ہے۔ جرمنی کی بجلی کی پیداوار میں تقریباً پانچواں حصہ گیس کا ہے۔
امریکہ روس کے خلاف فوری اقدامات کا خواہاں ہے اور وہ روس کے خلاف تمام ممکنہ سخت ترین پابندیوں پر فوری عمل چاہتا ہے۔ تاہم یورپی ممالک کے لیے یہ آسان کام نہیں ہے۔ پیر کے روز ہی برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے بھی کہا کہ روسی تیل اور گیس پر انحصار کم کرنا ''صحیح سمت میں قدم'' ہے تاہم اس پر ''مرحلہ وار قدم بہ قدم'' عمل کیا جانا چاہیے۔
بورس جانسن نے لندن میں ڈچ اور اپنے کینیڈین ہم مناصب کے ساتھ بات چیت کے بعد ایک پریس کانفرنس میں کہا، ''ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ ہمارے پاس متبادل سپلائی موجود ہو۔ ایک چیز جسے ہم دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اپنے ہائیڈرو کاربن کا استعمال کرنے پر توجہ دیں۔''
گرچہ برطانیہ کا یورپ کے دیگر ممالک کے مقابلے میں روسی گیس پر انحصار بہت کم ہے تاہم جانسن نے کہا کہ اس معاملے میں یہ ضروری ہے کہ ''ہر کوئی ایک ہی سمت میں آگے بڑھے۔''
انہوں نے کہا، ''مختلف ممالک کا انحصار مختلف نوعیت کا ہے اور ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ چاہے وہ روس سے ہی کیوں نہ ہو، آپ راتوں رات تیل اور گیس کے استعمال کو اس طرح بند نہیں کر سکتے۔''
ص ز / ج ا (روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی)