1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اہم ترین پاکستانی سیاستدانوں کا 'انڈیا کنیکشن‘

جاوید اختر، نئی دہلی
16 فروری 2024

پاکستان کی حکمرانی کا تاج کس کے سر پر سجے گا یہ شاید چند دنوں میں واضح ہو جائے۔ لیکن اقتدار کی باگ ڈور خواہ جس کسی کے بھی ہاتھ میں ہو گی اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان کے تانے بانے کسی نہ کسی طرح سے بھارت سے جڑتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4cSxq
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی دسمبر 2015
میں اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے لیے اچانک لاہور پہنچ گئے تھے
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی دسمبر 2015 میں اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے لیے اچانک لاہور پہنچ گئے تھےتصویر: picture-alliance/dpa/Press Information Bureau

نواز شریف، شہباز شریف، بلاول بھٹو اور عمران خان سے لے کر مولانا فضل الرحمان اور عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ ہر جماعت کے رہنماؤں کا تعلق کسی نہ کسی صورت میں بھارت سے ہے۔

جیل میں قید پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان اور لندن میں مقیم متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کی دہلی آمد پر ان کے ساتھ خاصا وقت گزارنے والے بھارتی صحافی وویک شکلا نے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ خصوصی بات چیت میں کئی دلچسپ حقائق بتائے۔

عمران خان کا جالندھر سے صدیوں پرانا رشتہ

عمران خان کے نانا ڈاکٹر اکرام اللہ خان جالندھر کے معروف ماہر تعلیم تھے۔ ان کا گھر بستی دانشمندان میں تھا۔ انہوں نے جالندھر میں اسلامیہ کالج قائم کیا تھا۔

وویک شکلا کا کہنا تھا کہ عمران جب 2007ء میں دہلی آئے تھے تو انہوں نے بتایا، ''میرے نانا کا خاندان تقریباً 500 سال سے جالندھر میں آباد تھا۔ لیکن تقسیم کی وجہ سے وہ لاہور چلے گئے۔‘‘  شکلا کے بقول سن 1983 میں جب پاکستانی کرکٹ ٹیم بھارت آئی تھی تو عمران خان اپنے ماموں کا گھر دیکھنے جالندھر بھی گئے تھے۔

پاکستانی انتخابات کا پھیکا پن اور بھارت

وویک شکلا کے بقول، ''میں عمران خان کو دہلی کی جامع مسجد لے گیا۔ انہوں نے وہاں نماز پڑھی اور افطار کیا اور ایک تقریر بھی کی تھی۔ بعد میں مسجد کے شاہی امام مولانا احمد بخاری نے عمران خان کی ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔"

عمران خان سن 2007 میں دہلی آمد پر دہلی کی شاہی جامع مسجد کے امام سید احمد بخاری کے ساتھ
عمران خان سن 2007 میں دہلی آمد پر دہلی کی شاہی جامع مسجد کے امام سید احمد بخاری کے ساتھتصویر: Vivek Shukla private archive

امرتسر سے شریف خاندان کا تعلق

سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور شہباز شریف کے آباؤ اجداد کا تعلق امرتسر کے قریب واقع جاتی امرا گاؤں سے ہے۔ شہباز شریف سن 2013 میں بھارت کے دورے کے دوران اپنے آباؤ اجداد کی نشانیاں دیکھنے گئے تھے۔ ان کے والد 1947ء سے پہلے ہی لاہور چلے گئے تھے۔

وویک شکلا بتاتے ہیں کہ اپنے والد کے ساتھ نواز شریف سن 1964 میں جاتی امرا  آئے تھے۔ شریف فیملی کی اسٹیل کمپنی 'اتفاق‘ کا بھارت کے نوین جندل کی کمپنی جے ایس ڈبلیو اسٹیل کے ساتھ کاروباری تعلق بھی ہے۔

کیا بالی وڈ بھارت اور پاکستان کو قریب لاسکتا ہے؟

ان کا مزید کہنا تھا، ''یہی وجہ ہے کہ شریف بھائیوں نے بھارت کے خلاف کبھی کوئی سخت بیان نہیں دیا اور اگر کبھی دیا بھی تو پاکستانی آرمی کے دباؤ میں آ کر دیا ہو گا۔‘‘

بھٹو اور پرانی دہلی کی گلیاں

بلاول زرداری بھٹو غالباً اس حقیقت سے اچھی طرح واقف ہوں گے کہ ان کی جڑیں بھی بھارت سے وابستہ ہیں۔ا ن کے پرنانا شاہ نواز بھٹو کی ایک بیوی عشرت سلطانہ عرف ببو بھی تھیں۔

وویک شکلا بتاتے ہیں کہ ببو اپنے زمانے کی مشہور اداکارہ، گلوکار اور موسیقار تھیں۔ انہوں نے بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کی فلموں میں کام کیا۔ وہ پرانی دہلی کے چاوڑی بازار کی رہنے والی تھیں اور بعد میں ممبئی منتقل ہو گئی تھیں۔ تقسیم کے بعد ببو نے پاکستان ہجرت کر لی تھی۔

کیا دہلی میں پاکستانی شہروں سے منسوب دکانیں محفوظ ہیں؟

بلاول کے نانا اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی ممبئی کے کیتھیڈرل اور جان کینن اسکول اور بعد میں سینٹ زیویئر کالج سے تعلیم حاصل کی تھی۔

وویک شکلا کے مطابق بھٹو کا خاندان سن پچاس کے بعد پاکستان گیا، ''اسی لیے پاکستان سے محبت کے حوالے سے ان پر ہمیشہ طنز کیا جاتا تھا اور شاید ہی وجہ تھی کہ وہ خود کو حقیقی پاکستانی ثابت کرنے کے لیے بھارت کو زیادہ برا بھلا کہتے تھے۔‘‘

سر شاہ نواز بھٹو انڈیا کی تقسیم سے قبل ریاست جوناگڑھ کے وزیر اعظم تھے۔ انہوں نے ایک ہندو خاتون لکی بائی سے شادی کی، جو بعد میں خورشید بیگم ہو گئیں۔ جب سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا تو جوناگڑھ شہر کی جامع مسجد میں ان کے ایصال ثواب کے لیے دعا کی گئی تھی۔

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کی دہلی آمد پر ان کے ساتھ بھارتی صحافی وویک شکلا
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی الطاف حسین کی دہلی آمد پر ان کے ساتھ بھارتی صحافی وویک شکلا تصویر: Vivek Shukla

الطاف حسین اور ارہر کی دال

ایم کیو ایم رہنما الطاف حسین جب ایک سمینار میں شرکت کے لیے سن 2004 میں دہلی آئے تو آگرہ بھی گئے تھے۔ اس سفر میں شکلا بھی ان کے ساتھ تھے۔وویک شکلا نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا۔ انہو ں نے بتایا، ''میں انہیں آگرہ کے راجہ بازار کی سیر کرا رہا تھا۔ دال کی ایک دکان پر جب میں نے انہیں ارہر کی دال دکھا کر پوچھا کہ کیا وہ اس سے واقف ہیں۔ یہ سن کر الطاف نے کہا کہ ارے یار، میں تو اسے دیکھ کر پاگل ہو جاتا ہوں، اترپردیش یاد آجاتا ہے۔‘‘

پاکستانی کرکٹر حسن علی کے سسراپنی نواسی سے ملنے کے لیے بے قرار

لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے الطاف حسین کا کہنا تھا، ''وہ بہت ہی بدقسمتی کا دن ہوتا ہے جب میرے گھر میں یوپی، آگرہ، علی گڑھ وغیرہ کی بات نہیں ہوتی۔‘‘ وویک شکلا بتاتے ہیں کہ پر ایم کیو ایم رہنما کا کہنا تھا، ''میری سات پشتیں آگرہ سے ہیں۔ میرے والد راجہ بازار میں ملازمت کرتے تھے۔‘‘

عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یا ر ولی خان کے پردادا خان عبدالغفار خان کو بھارت نے سن 1987 انہیں اپنے سب سے بڑے شہری اعزاز 'بھارت رتن‘ سے نوازا تھا
عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یا ر ولی خان کے پردادا خان عبدالغفار خان کو بھارت نے سن 1987 انہیں اپنے سب سے بڑے شہری اعزاز 'بھارت رتن‘ سے نوازا تھاتصویر: Creative Commons

مولانا فضل الرحمان اور اسفند یار ولی خان

جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے رہنما مولانا فضل الرحمان کا بھارت سے رشتہ دارالعلوم دیوبند سے صرف مسلکی حوالے تک محدود نہیں۔ ان کے والد مفتی محمود نے مدرسہ شاہی مرادآباد، اترپردیش سے باضابطہ دینی تعلیم حاصل کی اور بعد میں دارالعلوم دیوبند سے بھی فراغت حاصل کی۔ وہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے بانیوں میں سے تھے۔

مولانا فضل الرحمان دسمبر 2013ء میں دہلی آئے تھے اور مشہور رام لیلا میدان میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کیا تھا۔

سیما حیدر پاکستانی جاسوس ہیں، یا پھر بھارتی ایجنٹ؟

عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما کا تو بھارت سے دلی تعلق رہا ہے۔ اس کے موجودہ سربراہ اسفند یا ر ولی خان کے پردادا خان عبدالغفار خان کو بھارت میں سرحدی گاندھی کے نام سے یاد کیا اور نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بھارت نے سن 1987 انہیں اپنے سب سے بڑے شہری اعزاز 'بھارت رتن‘ سے نوازا تھا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے عوام ہی نہیں بہت سے سیاسی رہنما بھی بھارت سے دلی قربت رکھتے ہیں۔