ایئرانڈیا برائے فروخت
27 جنوری 2020حکومت نے پیر کو ایئر انڈیا کی نجکاری کا اعلان کرتے ہوئے اس کی خریداری میں دلچسپی رکھنے والی کمپنیوں سے سترہ مارچ تک درخواستیں طلب کی ہیں۔
ایئرانڈیا پر ساٹھ ہزار کروڑ روپے سے زیادہ کا قرض ہے۔ اس کے پاس اپنے ملازمین کو تنخواہ دینے اور ایندھن خریدنے کے بھی پیسے نہیں۔
مودی حکومت نے سال 2018 میں بھی ایئر انڈیا کی 76 فیصد نجکاری کی کوشش کی تھی لیکن یہ کوشش اس وقت ناکام ہوگئی جب کسی بھی کمپنی یا فرد نے اسے خریدنے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
ایک پریس کانفرنس میں سول ایوی ایشن کے وزیر ہردیپ سنگھ پوری نے امید ظاہر کی اس مرتبہ حکومت اس کی نجکاری میں کامیاب ہوجائے گی۔
ان کا کہنا تھا، ”اس مرتبہ فروخت کی شرائط زیادہ دلچسپ ہیں۔ پچھلی مرتبہ 76 فیصد شیئر فروخت کیے جانے تھے لیکن اس مرتبہ سو فیصد شیئر فروخت کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ خریداری کے لیے اہلیت اور کنشورشیم بنانے کی شرطیں بھی آسان کردی گئی ہیں۔"
تاہم حکومت کے فیصلے کے خلا ف اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ خود حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اندر بھی مخالفت شروع ہوگئی ہے۔
بی جے پی کے سینئر رہنما اور رکن پارلیمان سبرامنیم سوامی نے ایئر انڈیا کی فروخت کو 'ملک دشمن‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ حکومت کے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے۔
ادھر اپوزیشن جماعت کانگریس نے بھی حکومت کے اس فیصلے کی سخت مخالفت کی ہے۔
کانگریس کے رکن پارلیمان اور سابق وفاقی وزیر کپل سبل نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ”حکومت کے پاس پیسے نہیں ہیں اس لیے وہ یہ سب کررہی ہے۔ ترقی کی شرح پانچ فیصد سے بھی کم ہوگئی ہے۔ منریگا اسکیم کے تحت کام کرنے والے مزدوروں کے اربوں روپے واجب الادا ہیں۔ حکومت اب ملک کے تمام قیمتی اثاثوں کو فروخت کرے گی۔"
1932 میں قائم ایئر انڈیا 'مہاراجہ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ماضی میں اس نے کافی ترقی کی لیکن آہستہ آہستہ اس کا زوال شروع ہوا اور خسارہ بڑھتا گیا اور نوبت یہ آگئی کہ گذشتہ برس حکومتی تیل کمپنیوں نے ایئر انڈیا کو ایندھن کی سپلائی روک دی کیونکہ ان کی بقایہ جات ادا نہیں کی گئی تھی۔
سول ایوی ایشن کے وزیر ہردیپ سنگھ پوری نے اعتراف کیا کہ ایئر انڈیا قرض کے جال میں پھنس گئی ہے، جس سے نکلنے کے لیے حکومت کے پاس وسائل نہیں، اس لیے اس کی نجکاری ضروری ہوگئی تھی۔
حکومت نے ایئر انڈیا کے فروخت کے لیے جو شرائط طے کی ہیں ان میں ممکنہ خریدار کو دیگر واجب الادا رقوم کے علاوہ قومی فضائیہ کمپنی کی طرف سے لیے گئے 3.26 ارب ڈالر کے قرضے بھی ادا کرنے ہوں گے۔