ایبٹ آباد آپریشن: جنرل پاشا کی پارلیمان سے معذرت
13 مئی 2011جمعہ کے روز وفاقی پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں ایبٹ آباد میں امریکی کمانڈوز کے فوجی آپریشن اور اس کے بعد کی صورتحال سے متعلق عوام کے منتخب نمائندوں کو بریفنگ دیتے ہوئے جنرل پاشا کا کہنا تھا کہ وہ خود کو پارلیمان کے سامنے ’سرنڈر‘ کرتے ہیں۔
کہنے کو تو یہ مشترکہ اجلاس ’ان کیمرہ‘ یا بند کمرے میں ہونے والی کارروائی تھا لیکن وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اجلاس شروع ہونے کے کچھ ہی دیر بعد سرکاری ٹی وی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اجلاس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہان شریک ہوئے جبکہ آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل، ڈی جی ملٹری آپریشنز، پاک فضائیہ کے سربراہ اور ڈپٹی چیف آف ایئرسٹاف نے اراکین پارلیمان کو بریفنگ دی۔
فردوس عاشق اعوان کے مطابق آئی ایس آئی کے سربراہ پاشا نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کو بتایا، ’’آئی ایس آئی نے اسامہ بن لادن کے اکثر ساتھیوں کو ہلاک کر دیا تھا، اس لیے وہ (اسامہ) زندہ رہ کر بھی مردوں کی طرح تھا۔ امریکہ نے ہمیں اندھیرے میں رکھ کر خفیہ ایکشن کیا۔‘‘ وفاقی وزیر اطلاعات کے مطابق جنرل پاشا کا کہنا تھا کہ وہ ’پارلیمنٹ اور جمہوری حکومت کو جوابدہ ہیں اور ہر فورم پر احستاب کے لیے تیار ہیں‘۔
اسلام آباد میں ملکی پارلیمان کے چند ارکان نے اپنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈؤئچے ویلے کو بتایا کہ اپوزیشن جماعت مسلم لیگ (ن) کے بعض ارکان کا آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کے ساتھ تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
نواز لیگ کی رکن قومی اسمبلی تہمینہ دولتانہ اس وقت اپنی نشست پر کھڑی ہو گئیں، جب آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے کہا کہ نائن الیون کا واقعہ ہوا، تو سی آئی اے پر اعتراض نہیں کیا گیا۔ جب ممبئی میں حملے ہوئے، تو بھارت کی خفیہ ایجنسی پر انگلیاں نہیں اٹھائی گئی تھیں، جب لندن میں حملے ہوئے تو برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی 6 کو برطانوی اراکین پارلیمان کی جانب سے تنقید کا نشانہ نہیں بنایا گیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کے اراکین نے اس پر شدید احتجاج کیا اور کہا کہ بھارت امریکہ اور برطانیہ کی فوج نے کبھی جمہوری حکومت کا تختہ بھی نہیں الٹا اور نہ ہی ان ممالک کی خفیہ ایجنسیوں نے کبھی سیاست میں مداخلت کی ہے۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے ڈی جی ملٹری آپریشنز اور پاک فضائیہ کے سربراہ راؤ قمر کی تعریف کی۔ تاہم انہوں نے کہا کہ آئی ایس آئی کے ڈی جی کی بریفنگ ایک سیاسی خطاب لگتی ہے۔ ’’اگر ہمارے ادارے ناکامی تسلیم کرتے ہیں، تو ذمہ داری کا تعین بھی ہونا چاہیے۔‘‘
مسلم لیگ (ن) ہی کے سینیٹر اسحاق ڈار نے سوال اٹھایا کہ جیکب آباد میں شمسی ایئربیس امریکیوں کے حوالے کس معاہدے کے تحت کی گئی ہے۔ اس پر ایئر فورس چیف راؤ قمر سلیمان نے کہا کہ یہ ایئربیس متحدہ عرب امارات کے پاس ہے۔
مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ نے حکومت سے امریکہ کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعلقات پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے اور سوال کیا ہے کہ ’امریکی امداد کا کیا کریں گے، اگر پاکستان ہی نہ رہا‘۔
پارلیمنٹ کے اس ’ان کیمرہ‘ مشترکہ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کئی منتخب ارکان نے کہا کہ پاکستان کو امریکہ کے دباؤ میں آنے کے بجائے عزت اور وقار سے برابری کی سطح پر بات کرنی چاہیے۔
اجلاس میں شرکت کے بعد مسلم لیگ ق (ہم خیال گروپ) کے رکن ریاض فتیانہ نے صحافیوں کو بتایا کہ فوجی قیادت نے واضح کیا ہے کہ انہیں پارلیمان کا ہر فیصلہ منظور ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ فوج نے پارلیمان سے کسی اضافی بجٹ کا مطالبہ نہیں کیا اور یہ کہ عسکری قیادت کا کہنا تھا کہ وہ تحقیقاتی کمیشن کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔
پارلیمان کے اس مشترکہ اجلاس کےموقع پر دارالحکومت اسلام آباد میں تاریخ کے سخت ترین حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ پارلیمنٹ کی عمارت کے اردگرد ریڈ زون کے علاقے کی نہ صرف مسلسل فضائی نگرانی کی جاتی رہی بلکہ فوج، رینجرز اور پولیس کے اہلکاروں نے عام لوگوں کا اس علاقے میں داخلہ بھی بند کر رکھا تھا۔ صحافیوں کو بھی پارلیمنٹ کی عمارت سے دور پریڈ گراؤنڈ میں ہی روکے رکھا گیا۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: مقبول ملک