ایرانی اصلاح پسند سیاستدانوں کے خلاف عدالتی فیصلہ
19 اکتوبر 2009ایرانی عدالت نے جون کے متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد تہران میں شروع ہونے والے مظاہروں میں گرفتار دو اصلاح پسند سیاستدانوں کو کم از کم پانچ سال قید سزا کا حکم سنایا ہے۔ عدالت کے مطابق دونوں سیاستدان مظاہروں کے دوران شرکاء کو مشتعل اور قومی سلامتی کے خلاف اقدامات کرنے کے مرتکب پائے گئے ہیں۔
سزا پانے والوں میں سے ایک ہدایت آغائی ہیں جن کے خلاف عدالت میں سرکاری وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ہدات آغائی شہری امن کو خراب کرنے اور قومی سلامتی کے خلاف قدم اٹھانے کے باقاعدہ مرتکب پائے گئے ہیں۔ اِس کے علاوہ سرکاری وکیل کا کہنا تھا کہ وہ انتخابات کے بعد مظاہرین کو مشتعل کرنے کے علاوہ حکومت مخالف پراپیگنڈہ بھی کرتے رہے ہیں۔ ایران کے سرکاری خبر رساد ادارے IRNA کے مطابق ہدایت آغائی کو ابھی کچھ اور مقدمات کا بھی سامنا ہے جن میں رشوت ستانی اور اعلیٰ حکومتی عہدے داروں کی تحقیر شامل ہے۔ ہدایت آغائی کے وکیل علی رضا جعفریان اپنے مؤکل کی سزا کے خلاف بڑی عدالت میں اپیل دائر کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔
ہدایت آغائی اُس اصلاح پسند سیاسی جماعت کے اعلیٓ عہدے دار ہیں جو سابق صدر اکبر ہاشمی رفسنجانی کے نظریات اور خیالات کے انتہائی قریب تصور کی جاتی ہے۔ اِس اعتبار سے کہا جا سکتا ہے کہ وہ بھی سابق صدر کے قریب افراد میں سے ہیں۔ جون کے صدارتی الیکشن میں وہ میر حسین موسوی کی کھلےعام حمایت کر رہے تھے۔
ایک دوسرے مقدمے میں میر حسین موسوی کے ایک اور سرگرم حامی شہاب طباطبائی کو بھی پانچ سال قید سزا کا حکم سنایا گیا ہے۔ اُن کی قید سزا کی تصدیق اُن کے وکیل فرزام اردلان نے کردی ہے۔ دونوں افراد کے پاس یہ حق ہے کہ وہ ماتحت عدالت کے حکم کے خلاف اعلیٰ ایرانی عدالت میں نظرثانی کی اپیل کر سکتے ہیں۔ ماتحت عدالت سے سزا پانے والے افراد ایرانی دستور کے مطابق دو اپیلوں کا حق رکھتے ہیں۔
جون کے متنازعہ صدارتی الیکشن کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں میں تقریباً چار ہزار افراد گرفتار کئے گئے تھے۔ بیشتر کو رہائی حاصل ہو چکی ہے۔ البتہ ایک سو چالیس افراد کو مفدمات کا سامنا ہے۔ اِن میں کئی اہم اصلاح پسند سیاستدان بھی ہیں جو اعلیٰ سیاستدانوں کے فریبی رفقا خیال کئے جاتے ہیں۔ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کے مقابلے پر کھڑے امیدوار میر حسین موسوی اور مہدی کروبی بارہ جون کے صدارتی الیکشن کو متنازعہ قرار دیتے ہیں۔ میر حسین موسوی اور مہدی کروبی کے درمیان گزشتہ دنوں ایک ملاقات بھی ہوئی اور اُس کے بعد دونوں لیڈروں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اُن کو ایرانی ٹیلی ویژن پر اپنا مؤقف بیان کرنے کا موقع فراہم کیا جائے تا کہ وہ حقائق عوام تک پہنچا سکیں۔ سابق ایرانی صدر محمد خاتمی کا کہنا ہے کہ جون کے الیکشن کے بعد مظاہرین کی آأواز وقتیف طور پر تو دبائی جا سکتی ہے لیکن یہ مسلسل موجود رہے گی اور حکومت کو مظاہروں کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔
دریں اثنا ایرانی عدالت کی جانب سے متنازعہ صدارتی الیکشن کے بعد مظاہروں کے دوران گرفتار تین اشخاص کو موت کی سزا سنا ئی جا چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کی سربراہ نے ایرانی حکام سے اپیل کر رکھی ہے کہ اِن افراد کی سزاؤں پر نظرثانی کی جائے۔