ایرانی جوہری پروگرام سے متعلق نئے خدشات
8 مارچ 2011عالمی ادارے کی اس ایجنسی کے سربراہ یُوکیا امانو کے مطابق اب یہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام کو فوجی مقاصد کے لیے بھی استعمال کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ایران اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی وضاحت کرنے میں ناکام رہا ہے جبکہ تہران حکومت جوہری ہتھیاروں سے لیس میزائل تیار کر سکتی ہے۔
IAEA کے سربراہ یُو کیا امانو کا کہنا ہے، ’’ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کے پروگرام پر عمل پیرا ہے۔ ہمیں اس جوہری پروگرام کے حوالے سے خدشات ہیں اور ہم تہران حکومت سے اس بارے میں وضاحت چاہتے ہیں۔‘‘
یُوکیا امانو نے مزید کہا، ’’ہمیں گزشتہ برس کچھ معلومات حاصل ہوئی تھیں، جن سے ایرانی جوہری پروگرام کے بارے میں پائے جانے والے خدشات زیادہ ہو گئے ہیں۔‘‘
ایران ہمیشہ سے ہی اس مغربی الزام کی تردید کرتا آیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام فوجی مقاصد کے لیے ہے۔ ایران کا یہ موقف رہا ہے کہ اس کے ایٹمی پروگرام کا مقصد بجلی پیدا کرنا ہے تاکہ ملکی گیس اور تیل کی برآمد میں اضافہ کیا جا سکے۔
ایٹمی توانائی کے بین الاقوامی ادارے کی طرف سے گزشتہ مہینے ایک خفیہ رپورٹ جاری کی گئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ ایران ممکنہ طور پر اپنے جوہری پروگرام کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ ایرانی حکومت اس رپورٹ کو محض الزامات پر مبنی اور من گھڑت قرار دے چکی ہے۔
یُوکیا امانو نے یہ نہیں بتایا کہ ان کے ادارے کو یہ نئی معلومات کہاں سے حاصل ہوئی ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا، ’’ہم مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کر رہے ہیں۔ عام طور پر ہم کسی ایک ذریعے پر انحصار نہیں کرتے۔‘‘
گزشتہ برس امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایرانی ایٹمی سائنسدان شاہرام امیری کو سی آئی اے نے پانچ ملین ڈالر سے زائد کی رقم دے کر تہران کے جوہری پروگرام کے بارے میں خفیہ معلومات حاصل کی تھیں۔
ایرانی جوہری سائنسدان شاہرام امیری پچھلے برس ایک سال تک پراسرار انداز میں لاپتہ رہنے کے بعد واشنگٹن سے واپس اپنے وطن پہنچ گئے تھے۔ ان کا یہ دعویٰ تھا کہ انہیں امریکی خفیہ ایجنسی CIA نے اغوا کیا تھا۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: مقبول ملک