1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات

22 اپریل 2024

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے آج پیر کو تین روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچنے کے فوراً بعد وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماوں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دونوں ملکوں کی جانب سے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا۔

https://p.dw.com/p/4f2Vr
آٹھ سالوں کے بعد ایران کے کسی صدر کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہے
آٹھ سالوں کے بعد ایران کے کسی صدر کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہےتصویر: Pakistan Prime Minister Office/AP Photo/picture alliance

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے آج پیر کو تین روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچنے کے فوراً بعد وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔ دونوں رہنماوں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دونوں ملکوں کی جانب سے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا۔

ایرانی صدر کا دورہ پاکستان دونوں پڑوسی ممالک کے مابین اس سال جنوری میں ایک دوسرے کے خلاف براہ راست حملوں کے تناظر میں اہم سمجھا جا رہا ہے۔ ایرانی صدر کا پہلے سے طے شدہ اسلام آباد کا یہ دورہ ایران اور اسرائیل کے مابین حالیہ کشیدگی کے بعد شکوک و شبہات کا شکار ہو گیا تھا۔

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے اس تین روزہ دورے میں صدر کے ہمراہ ان کی اہلیہ اورایک اعلیٰ سطحی وفد بھی آیا ہے۔ اسلام آباد پہنچنے کے فوراً بعد وہ وزیر اعظم ہاوس پہنچے، جہاں شہباز شریف نے ان کا استقبال کیا۔

ایرانی صدر کا دورہ پاکستان علاقائی سلامتی کے لیے کتنا اہم؟

دونوں رہنماوں کی ملاقات کے بعد وزیر اعظم ہاوس کی طرف سے جاری ایک بیان کے مطابق دونوں رہنماوں نے ملاقات میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے دونوں ملکوں کی جانب سے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا۔

بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت اور مواصلاتی روابط بڑھانے پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان وفود کی سطح پر بات چیت کا دور بھی ہو گا۔

آٹھ سالوں کے بعد ایران کے کسی صدر کا پاکستان کا یہ پہلا دورہ ہے۔ اس سے  قبل مارچ 2016 میں ایرانی صدر حسن روحانی نے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا تھا۔

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے اس تین روزہ دورے میں صدر کے ہمراہ ان کی اہلیہ اورایک اعلیٰ سطحی وفد بھی آیا ہے
ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے اس تین روزہ دورے میں صدر کے ہمراہ ان کی اہلیہ اورایک اعلیٰ سطحی وفد بھی آیا ہےتصویر: @ForeignOfficePk

وزیر خارجہ سے ملاقات

ایرانی صدر ابراہیم ریئسی نے وزیرخارجہ اسحق ڈار سے بھی ملاقات کی، ملاقات میں پاک ایران تعلقات پر تفصیلی گفتگو کی گئی، باہمی دلچسپی کے امور اور خطے کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا، دونوں رہنماؤں نے مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کو مزید فروغ دینے پر بھی اتفاق کیا۔

پاکستان ایران کی طرف ’’امن پائپ لائن‘‘ تعمیر کر رہا ہے

ایران کے ساتھ تجارت کرنے پر پاکستان پر پابندیاں ممکن، امریکی تنبیہ

ذرائع نے بتایا کہ پاکستان اور ایران نے ورک فورس اور فلم و سنیما میں تعاون کے لیے ایم اویوز کا فیصلہ کیا ہے۔

قبل ازیں پاکستان دفتر خارجہ نے ایک بیان جاری کیا تھا، جس کے مطابق 'ایرانی صدر لاہور اور کراچی کا بھی دورہ کریں گے اور صوبائی قیادت سے ملاقاتیں کریں گے۔ ملاقاتوں میں پاک ایران تعلقات کو مزید مضبوط بنانے سے متعلق امور پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ "پاکستان اور ایران کے درمیان تاریخ، ثقافت اور مذہب میں جڑے مضبوط دوطرفہ تعلقات ہیں۔ ایرانی صدر کا دورہ دو طرفہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کا ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے۔"

دونوں رہنماؤں نے مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کو مزید فروغ دینے پر بھی اتفاق کیا
دونوں رہنماؤں نے مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کو مزید فروغ دینے پر بھی اتفاق کیاتصویر: Atta Kenare/AFP/Getty Images

ایران پاکستان تعلقات میں نشیب و فراز

ایران اور پاکستان کے مابیں تعلقات میں نشیب و فراز کی ایک تاریخ رہی ہے لیکن جنوری میں دونوں ملکوں کے ایک دوسرے پر کیے گئے حملے کئی سالوں میں کشیدگی کے دوران سب سے سنگین واقعات تھے۔ ان حملوں کی ابتدا ایران کی جانب سے پاکستانی صوبے بلوچستان میں ایک ڈرون حملے سے ہوئی تھی۔ تہران کا موقف تھا کہ اس نے 'جیش العدل‘ نامی ایک سنی عسکریت پسند گروہ کو نشانہ بنایا ہے، جو ایران کے اندر مبینہ دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ہے۔

پاکستان نے اس کے جواب میں ایرانی صوبے سیستان بلوچستان پر ایک میزائل حملہ کیا۔ پاکستانی حکام کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایران میں موجود مسلح بلوچ علیحدگی پسندوں کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا ہے، جو پاکستانی صوبے بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں۔

اس تناؤ کے درجہ حرارت کو کم کرنے کے لیے تیز تر کوششوں کے نتیجے میں دونوں ممالک کی جانب سے یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ وہ ایک دوسرے کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتے ہیں، جبکہ سکیورٹی تعاون کو بڑھانے کا عزم کرتے ہیں۔

ج ا/ ص ز (خبر رساں ادارے)