ایرانی قیادت متوفی صحافیوں سے بھی خوفزدہ ہے، امریکہ
29 اکتوبر 2022امریکہ نے ایک صحافی کی لاش کو ان کے اہل خانہ کے سپرد کرنے سے انکار کرنے پر ایرانی رہنماوں کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس صورت حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایران کی مذہبی حکومت صحافیوں سے پس از مرگ بھی خوف زدہ ہے۔
رضا حقیقت نژاد جلاوطنی کے دوران ریڈیو فری یورپ اور ریڈیو لبرٹی کے فردا کے لیے کام کرتے تھے جو کہ امریکی امداد یافتہ فارسی نشریاتی ادارہ ہے۔ کینسر کے مرض میں 17 اکتوبر کو برلن کے ایک ہسپتال میں ان کا انتقال ہو گیا۔
ریڈیو فردا نے ان کے اہل خانہ کے حوالے سے بتایا کہ جب ان کی میت کو تدفین کے لیے ان کے آبائی شہر شیراز لائی جارہی تھی توایران کے پاسداران انقلاب اسلامی کے اہلکاروں نے ہوائی اڈے پر اسے ضبط کر لیا۔
میڈیا کو خوفزدہ کرنے کی کوشش
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے جمعے کے روز نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،
"ہمیں یہ جان کر انتہائی تکلیف پہنچی ہے کہ رضا کی میت اب بھی ہوائی اڈے پر پڑی ہے اور ایرانی اہلکار ان کے لواحقین پرکسی دوسری جگہ تدفین پر راضی ہونے کے لیے دباو ڈال رہے ہیں۔"
پرائس نے ایرانی حکام سے رضا کی میت فوراً ان کے اہل خانہ کے سپرد کرنے کی اپیل کی اور کہا کہ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ پریس کو کس حد تک ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کا کہنا تھا، "رضا حقیقت نژاد کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ایرانی قیادت صحافیوں سے مرنے کے بعد خوف کھاتی ہے۔"
ہلاک ہونے والوں کی لاشیں اہل خانہ کو دینے سے انکاری
اس دوران اقوام متحدہ نے ایران میں جاری احتجاج کے دوران حراست میں لیے گئے مظاہرین کے ساتھ حکومت کے سلوک پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے جمعے کے روز جاری ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ ایرانی حکام مظاہروں میں ہلاک ہونے والوں کی لاشیں ان کے لواحقین کے حوالے کرنے سے انکار کررہے ہیں۔
ایران: کیا مخالفین کی آواز انٹرنیٹ پر بھی دبا دی گئی؟
اقوام متحدہ انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر کی ترجمان روینا شمداسانی نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "تشویش کی بات یہ ہے کہ ایرانی حکام زخمی مظاہرین کو ہسپتالوں سے براہ راست حراستی مراکز منتقل کر رہے ہیں اور ہلاک ہونے والوں کی لاشیں بھی ان کے اہل خانہ کو دینے سے انکار کر رہے ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ کچھ معاملات میں حکام لاشوں کی حوالگی پر شرائط عائد کر رہے ہیں۔ ان میں اہل خانہ سے جنازہ کا اہتمام نہ کرنا اور میڈیا سے بات نہ کرنا جیسے شرائط شامل ہیں۔ جب کہ حراست میں رکھے گئے مظاہرین کو بعض اوقات طبی علاج سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔
ہلاکتوں کی تعداد 250 سے تجاوز
خیال رہے کہ حجاب کے قوانین کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں ایک 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری اور حراست کے دوران موت کے خلاف ملک اور بیرون ملک احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایران میں مظاہروں کے دوران اب تک کم از کم 250 افراد ہلاک اور سینکڑوں دیگر زخمی ہو چکے ہیں جبکہ ہزاروں افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
جمعے کے روز بھی ملک کے مختلف حصوں میں مظاہرے ہوئے۔ یہ مظاہرے 1979کے انقلاب کے بعد سے حکومت کو درپیش سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک ثابت ہو رہے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے حکومتی ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ اب تک تقریباً30 سکیورٹی اہلکار بھی ان پرتشدد مظاہروں کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔
مظاہروں سے گرفتار سینکڑوں ایرانی بچے ’نفسیاتی مراکز‘ میں قید
دریں اثنا امریکہ، البانیہ کے ساتھ مل کر آئندہ ہفتے بدھ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایک غیر رسمی اجلاس منعقد کر رہے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اس حوالے سے جاری ایک نوٹ میں کہا گیا ہے،"اس میٹنگ میں ایران میں خواتین اور لڑکیوں، مذہبی اور نسلی اقلیتی گروپوں کے افراد کے ساتھ جاری زیادتیوں کو اجاگر کیا جائے گا۔ یہ ایرانی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی معتبر اور آزادنہ تفتیش کی نشاندہی کے لیے مواقع بھی فراہم کرے گا۔"
اس میٹنگ میں نوبل امن انعام یافتہ ایرانی نژاد شیریں عبادی اور ایرانی نژاد ادارکارہ اور کارکن نازنین بنیادی بھی شرکت کریں گی۔
ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)