ایران اور امریکا تحمل کا مظاہرہ کریں، یورپی رہنما
6 جنوری 2020جرمن چانسلر انگیلا میرکل، فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں اور برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی طرف سے اتوار کو ایک مشترکہ بیان جاری کیا گیا، جس میں ان رہنماؤں نے زور دیا کہ 'کشیدگی میں کمی کی ہنگامی ضرورت‘ ہے اور 'عراق میں تشدد کا موجودہ سلسلہ لازمی طور پر ختم ہو جانا چاہیے‘۔
ان تینوں ممالک کے رہنماؤں نے دہرایا کہ وہ 'عراق کی خودمختاری اور سکیورٹی کے حق میں ہیں‘ اور 'ایک نیا بحران عراق میں قیام امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے‘۔ ان رہنماؤں نے یہ بیان ایک ایسے وقت میں جاری کیا ہے، جب ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد مشرق وسطیٰ میں کشیدگی اپنے عروج پر ہے۔
جنرل سلیمانی جمعے کے دن بغداد میں ایک امریکی حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ بعدازاں اتوار کو عراقی پارلیمان نے ایک ہنگامی سیشن میں ایک قرار داد منظور کی، جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ عراق میں تعینات تمام غیر ملکی بشمول امریکی فوجی نکال باہر کیے جائیں۔
دوسری طرف ایران نے اس تناظر میں اپنا پہلا باضابطہ ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اعلان کر دیا ہے کہ وہ عالمی جوہری معاہدے کی پاسداری نہیں کرے گا۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور میں سن دو ہزار پندرہ میں طے پانے والی یہ تاریخی ڈیل موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سن دو ہزار اٹھارہ میں ختم کرتے ہوئے ایران پر پابندیاں بحال کر دی تھیں۔
ایران کی طرف سے اس تازہ اعلان کے بعد یورپی ممالک نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تہران حکومت کسی تشدد یا جوہری سرگرمیوں کی بحالی سے باز رہے۔
یہ بیان عراق میں تعینات کولیشن فورسز پر ہوئے ایک حملے کے تناظر میں دیا گیا۔ مزید کہا گیا کہ 'خطے میں ایران کے منفی کردار بالخصوص پاسدران انقلاب گارڈز اور جنرل سلیمانی کی سربراہی میں قدس فورس کی طرف سے کیے گئے اقدامات پر ہمیں گہرے تحفظات ہیں‘۔
اتوار کے دن ہی جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے تجویز کیا کہ مشرق وسطیٰ کی تازہ صورتحال پر یورپی رہنماؤں اور مقامی فریقوں کے ساتھ مشاورتی عمل شروع کیا جائے۔ انہوں نے یورپی یونین پر زور دیا ہے کہ وہ تمام فریقوں کے ساتھ رابطہ کاری کو مؤثر بنانے کے لیے فوری طور پر ایکشن لے۔ ماس کے مطابق اس تناؤ میں کمی لانے کے لیے یورپ کو اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔