ایران اور بیلجیم کے مابین قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ
21 جولائی 2022دو دن کی زبردست بحث کے بعد بیلجیم کے اراکین پارلیمان نے ایران کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی توثیق کر دی ہے۔ اس معاہدے کی حمایت میں 79 جبکہ مخالفت میں 41 ووٹ ڈالے گئے۔ پارلیمانی کمیشن نے اس معاہدے کی پہلے ہی چھ جولائی کو منظوری دے دی تھی۔
معاہدے کی شدید مخالفت کیوں؟
اس معاہدے کے ناقدین میں نہ صرف بیلجیم کے اپنے شہری بلکہ جلاوطن ایرانی اپوزیشن تحریک کے ارکان بھی شامل ہیں۔ ان ناقدین کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ یہ معاہدہ تہران حکومت کے ہاتھوں بلیک میل ہونے کے مترادف ہے۔ لیکن بیلجیم حکومت کا کہنا ہے کہ ایران میں پہلے سے قید بلیجیم کے ایک شہری کو واپس لانے کا یہ واحد راستہ ہے۔ امدادی کارکن اولیور وینڈیکاسٹیلی ایک عرصے سے ایران میں قید ہیں۔
لیکن اس کا مطلب یہ ہو گا کہ بیلجیم ممکنہ طور پر ملک میں قید ایرانی سفارت کار اسداللہ اسدی کو معافی دیتے ہوئے رہا کرے گا۔ اسداللہ اسدی کو ایک بم دھماکے کی منصوبہ بندی کے الزام میں بیس سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ بیلجیم کی اپوزیشن کا حکومت پر الزام عائد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ یہ معاہدہ ''ایران کے ساتھ مشاورت‘‘ سے تیار کیا گیا ہے۔ اس معاہدے کی خبریں منظر عام پر آنے کے بعد سے جلاوطن ایرانیوں نے سڑکوں پر احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔
بم دھماکے کی منصوبہ بندی: ایرانی سفارت کار بھی گرفتار
سن 2018ء میں بیلجیم سکیورٹی حکام نے ایک ایرانی۔بیلجیم جوڑے کو دھماکہ خیز مواد کے ساتھ اس وقت گرفتار کر لیا گیا تھا، جب وہ فرانس میں ایک دھماکہ کرنے جا رہا تھا۔ یہ جوڑا پیرس میں ''نیشنل کونسل آف ریسسٹینس آف ایران‘‘ کے ایک اجتماع کو نشانہ بنانا چاہتا تھا۔ یہ ایرانی تنظیم تہران حکومت کی مخالف ہے۔
بیلجیم کی ایک عدالت کے مطابق دہشت گردی کے اس منصوبے کے ماسٹر مائنڈ ایرانی سفارت کار اسداللہ اسدی تھے اور انہوں نے ایسا ایرانی خفیہ ایجنسی کی ایماء پر کیا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اسداللہ اسدی آسٹریا میں سفارت کار ہیں اور انہیں بیلجیم میں استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔
دوسری جانب اس معاہدے کے حق میں ووٹ دینے والے اراکین پارلیمان کا کہنا ہے کہ اولیور وینڈیکاسٹیلی کو واپس ان کے ملک لانا ان کی اولین ترجیح ہے۔
ا ا / ر ب ( روئٹرز، ڈی پی اے)