ایران ایٹمی تنازعہ، پیش رفت کے آثار
3 فروری 2010عالمی طاقتوں کے یہ خدشات بدستور قائم ہیں کہ ایران اپنے ایٹمی پروگرام کی آڑ میں دراصل ایٹم بم بنانے کی تیاریاں کر رہا ہے۔ اِنہی طاقتوں کے ایماء پر ایٹمی توانائی کی بین الاقوامی ایجنسی آئی اے ای اے نے ایران سے جہاں یہ مطالبہ کیا تھا کہ اُسے اپنے ہاں یورینیم کی افزودگی روک دینی چاہیے وہیں ساتھ ہی یہ تجویز بھی پیش کی تھی کہ وہ اپنی کم افزودہ یورنیم کو مزید افزودگی کے لئے روس یا فرانس جیسے ممالک میں بھیج سکتا ہے۔ اِس تجویز کا جواب دینے کے لئے ایران کو اکتیس جنوری تک کی ڈیڈ لائن دی گئی تھی۔
ایران نے گزشتہ اکتوبر میں جنیوا میں عالمی طاقتوں کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں اِس تجویز پر اصولی رضامندی ظاہر کر دی تھی لیکن بعد ازاں ایسے بیانات سامنے آنے لگے، جن سے اندازہ ہوا کہ ایران اِس تجویز کو قبول نہیں کرے گا۔
ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان اِس کھینچا تانی میں تازہ پیشرفت ایرانی صدر محمود احمدی نژاد کا وہ انٹرویو ہے، جو منگل کو ایرانی سرکاری ٹیلی وژن سے براہِ راست نشر کیا گیا اور جس میں احمدی نژاد نے کہا کہ اُن کا ملک کم افزودہ یورینیم کو مزید افزودگی کے لئے ملک سے باہر بھیجنے کے لئے تیار ہے:’’مجھے مزید افزودگی کے لئے یورنیم ملک سے باہر بھیجنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مَیں تعمیری اشتراکِ عمل کا خواہاں ہوں۔‘‘
اپنے اِس انٹرویو میں احمدی نژاد نے مزید کہا کہ ایران عالمی طاقتوں کی جانب سے دی گئی تجویز کے عین مطابق تین اعشاریہ پانچ فیصد تک افزودہ یورینیم بیرونِ ملک بھیج سکتا ہے، جو چار یا پانچ ماہ میں بیس فیصد تک افزودہ کئے جانے کے بعد واپس ایران بھیج دی جائے گی۔ اِس طرح ایران نے بظاہر بین الاقوامی برادری کے مطالبات مان لئے ہیں۔
دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ تین اعشاریہ پانچ فیصد تک افزودہ یورنیم کو بیس فیصد تک افزودہ کرنے میں چار پانچ ماہ کے بجائے ایک سال تک کا عرصہ لگ جاتا ہے۔
امریکہ نے ایرانی صدر کے بیان پر محتاط رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایران واقعی رضامند ہے تو اُسے ایٹمی توانائی کے ادارے آئی اے ای اے سے رجوع کرنا چاہیے۔ اِس سے پہلے امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کہہ چکے ہیں کہ ایران صرف سختی کی زبان سمجھتا ہے۔ گیٹس کے مطابق:’’ایران کی ایٹمی اسلحہ بندی کو نظر انداز بھی کر دیا جائے تو اُس کے بڑے پیمانے کے روایتی ہتھیار ہی بہت زیادہ تشویش کا باعث ہیں۔‘‘
امریکی وزیر دفاع اور دیگر سرکردہ قائدین کے مطابق فوجی کارروائی سمیت ایران کے خلاف تمام تر امکانات بدستور موجود ہیں۔ اِدھر برطانیہ کے مطابق اگر ایرانی موقف میں واقعی لچک آئی ہے تو یہ ایک مثبت بات ہے۔ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے ایرانی صدر کے بیان پر محتاط رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کو اُس کے بیانات نہیں بلکہ عملی اقدامات کے پیمانے سے ماپا جائے گا۔
چین نے بھی محتاط ردعمل ظاہر کیا ہے جبکہ روس نے ایرانی صدر کے بیان کا خیر مقدم کیا ہے۔ اِسی دوران مغربی دُنیا نے ایران ہی میں تیار کئے جانے والے اُس راکٹ کی آج بدھ کو عمل میں آنے والی آزمائشی پرواز پر بھی تشویش ظاہر کی ہے، جو بعد ازاں مصنوعی سیارے زمین کے مدار میں پہنچانے کے لئے استعمال کیا جائے گا۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: کشور مصطفےٰ