ایران ایک ملین افغان مہاجرین بچوں کو تعلیم کیسے دے؟
22 ستمبر 2017سن 2015ء میں ایران کے سپریم کمانڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے تعلیم کے محکمے سے منسلک حکام سے کہا تھا کہ وہ افغان بچوں کی تعلیم کا بندوبست کریں، چاہے وہ بچے بہ طور مہاجر رجسٹرڈ ہوں یا نہ ہوں۔ خامنہ ای نے کہا تھا کہ ان بچوں کو ملک بھر کے تعلیمی مراکز میں جگہ دی جانا چاہیے۔
ایرانی مرکز برائے شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ایران میں موجود مہاجرین کا 95 فیصد افغان باشندوں پر مشتمل ہے۔
خامنہ ای کی اس اعلان سے قبل اسکول ان مہاجر بچوں کو داخلہ نہیں دیتے تھے، جن کے پاس قانونی دستاویزات نہیں تھیں۔
ايران سے وطن لوٹنے والے افغان مہاجرين کی تعداد میں نماياں اضافه
مہاجرین کے لیے ایرانی اقدامات ’مثالی‘ ہیں، اقوام متحدہ
افغان مہاجرین کو ایران تک محدود کرنے کی یورپی یونین کی کوشش
تہران یونیورسٹی سے وابستہ ماہر سماجیات نادر موسوی کے مطابق خامنہ ای کی جانب سے اس اعلان کا خاصا فرق پڑا تھا اور اس طرح ایران میں غیرقانونی طور پر موجود افغان بچوں میں سے تین چوتھائی کی پہنچ اسکولوں تک ہو گئی تھی۔
موسوی جو خود بھی افغان شہری ہیں، تہران میں افغان بچوں کے لیے کام کرنے والے ایک اسکول کے مینیجر کے طور پر بھی گزشتہ 19 برس سے کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ خامنہ ای کی جانب سے اس اعلان کے بعد ان کے اسکول میں موجود ایسے تین سو میں سے دو سو بچوں نے مختلف سرکاری اسکولوں میں داخلہ لیا تھا۔
یہ بات اہم ہے کہ غیرقانونی افغان مہاجرین کے لیے غیرسرکاری تنظیموں نے متعدد اسکول بنا رکھے ہیں، جنہیں چلاتے بھی افغان ہی ہیں۔
اس اسکول کو بھی ایرانی حکام تسلیم نہیں کرتے تھے، تاہم گزشتہ ایک برس سے ان کی اسناد کو تسلیم کیا جانے لگا ہے۔ ان اسکولوں میں پڑھنے والوں بچوں کو اسناد افغان قونصل خانے یا سفارت خانے کی جانب سے جاری کی جاتی ہیں۔ تاہم غیرقانونی مہاجر بچوں کو تعلیم دینے والے ان اسکولوں کو چھاپے مار کر بند کرنے کا سلسلہ بھی ماضی میں دیکھا جاتا رہا ہے۔
خامنہ ای کی جانب سے افغان مہاجر بچوں کو اسکولوں میں داخلہ دینے کے اعلان کے بعد اس صورت حال میں کسی حد تک بہتری تو آئی ہے، تاہم اقوام متحدہ کے ادارہ برائے یونیسیف سے وابستہ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک کارکن اکرم خاتم کے مطابق، اب بھی افغان مہاجرین کے لیے سماجی سطح پر حالات اب بھی مکمل طور پر سازگار نہیں ہیں۔
بعض ماہرین کا تاہم یہ بھی کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کی بابت عام ایرانی باشندوں کے رویے میں خاصی مثبت تبدیلیاں دیکھی جا رہی ہیں۔ موسوی کے مطابق پچھلے پانچ برس میں یہ رویہ خصوصاﹰ بہتر ہوا ہے۔