ایران جوہری معاہدے پر واشنگٹن اور تہران دونوں ہی مایوس
3 دسمبر 2021امریکا اور ایران دونوں نے ہی سن 2015 کے ایران جوہری معاہدے کی بحالی کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ تاہم واشنگٹن کو اب بھی توقع ہے کہ اس معاہدے کو دوبارہ بحال کیا جا سکتا ہے۔
جمعرات دو دسمبر کو امریکا نے ایک بار پھر کہا کہ اب بھی تہران کے لیے ''راستہ بدلنے'' اور واپسی کے لیے ''بہت دیر نہیں ہوئی ہے۔'' امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن کا کہنا تھا، ''میں بتانا چاہتا ہوں، حالیہ حرکتیں، حالیہ بیان بازی، ہمیں پر امید ہونے کا بہت زیادہ سبب نہیں فراہم کرتی ہیں۔''
معاہدے کی بحالی کا وقت نکلا جا رہا ہے
امریکی وزیر خارجہ نے مزید کہا، ''گرچہ وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے، ایران کے لیے راستہ بدلنے میں اب بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے کہ تہران کی جوہری صلاحیتوں کو روکنے کے لیے واشنگٹن کی جانب سے پابندیوں میں نرمی کے بدلے اس معاہدے کو بچایا جا سکے۔
انٹونی بلینکن نے کہا، ''مستقبل قریب میں، اگلے دن ہی یا اس کے بعد، ہم یہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے کہ آیا ایران واقعی اب نیک نیتی سے بات چیت کرنے کا ارادہ رکھتا ہے یا نہیں۔''
سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں 'آرگنائزیشن فار سکیورٹی اینڈ کوآپریشن ان یورپ' (او ایس سی ای) کی میٹنگ جاری ہے اور اسی موقع پر امریکی وزیر خارجہ نے ایران جوہری معاہدے سے متعلق اتنی مایوس کن باتیں کہیں۔
مشترکہ جامع منصوبہ عمل (جے سی پی او اے) کے نام سے معروف 2015 کے ایران جوہری معاہدے کے تحت ایران کو اس کی جوہری سرگرمیاں بند کرنے کے عوض میں بعض اقتصادی پابندیاں ختم کرنے کی پیش کش کی گئی تھی۔ تاہم یہ معاہدہ سن 2018 میں اس وقت تعطل کا شکار ہو گیا جب اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کو یک طرفہ طور پر اس سے الگ کر لیا اور ایران پر نئی پابندیاں عائد کر دیں۔اس کے بعد ایران نے بھی اپنی جوہری سرگرمیاں شروع کردیں اور مقررہ حد سے زیادہ یورینیم افزودہ کرنے لگا۔
ویانا مذاکرات مایوس کن
ادھر اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی بینٹ نے جمعرات کو ہی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن کو فون کر کے فوری طور پر ویانا بات چیت روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ پانچ ماہ کے وقفے کے بعد عالمی طاقتوں کے ساتھ یہ مذاکرات اسی ہفتے پیر کو شروع ہوئے تھے۔
آسٹریا کے دارالحکومت میں ہونے والی بات چیت میں امریکا بھی بالواسطہ طور پر شامل ہے جس کے چوتھے روز اسرائیلی وزیر اعظم نے یہ بات کہی ہے۔ ان مذاکرات کا مقصد دونوں ممالک کو دوبارہ بورڈ پر لانا ہے۔
ایران نے بھی اس معاہدے میں دوبارہ جان ڈالنے کے امکان پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ایرانی میڈیا نے ملک کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کے حوالے کہا، ''ہم سنجیدہ عزم کے ساتھ ویانا گئے تھے، لیکن اس معاہدے کے حوالے سے امریکا اور تین یورپی فریقوں کی مرضی اور ان کے ارادوں کے بارے میں ہم پر امید نہیں ہیں۔''
سن 2015 میں ہونے والے اس معاہدے میں امریکا، چین، روس، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ساتھ ہی یورپی یونین بھی شامل تھے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)