ایران خوش، تیل اور سستا لیکن کئی خلیجی عرب ریاستیں پریشان
17 جنوری 2016کویت سے اتوار سترہ جنوری کے روز ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق ہفتہ سولہ جنوری کی رات ویانا میں کیے گئے ایران پر عائد یورپی یونین اور امریکا کی اقتصادی پابندیوں کے خاتمے کے اعلانات کے فوری بعد تہران نے اپنے خام تیل کی برآمد بحال کرنے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ لیکن پابندیوں کے خاتمے کے محض چند ہی گھنٹے بعد یہ بھی ہوا کہ بین الاقوامی منڈیوں میں خام تیل کی قیمتیں ایک بار پھر واضح حد تک کم ہو گئیں۔
پرسوں جمعے کے روز عالمی سٹاک مارکیٹوں میں، جب عرب ملکوں کے سٹاک ایکسچینج جمعے کے روز ہفتہ وار چھٹی کی وجہ سے بند تھے، بہت زیادہ نقصانات دیکھنے میں آئے تھے۔ آج اتوار کے روز، جب بہت سے مسلم اکثریتی ملکوں میں کاروبار کے نئے ہفتے کا پہلا دن تھا، ان مارکیٹوں کو بھی شدید نقصانات برداشت کرنا پڑے۔
خلیج کی عرب ریاستوں کو ہونے والی آمدنی کا 80 فیصد سے بھی زائد حصہ تیل کی برآمد سے حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اب ان عرب ممالک کا مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ دو سال کے دوران اگر عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں 65 فیصد کم ہوئی تھیں تو سال روں کےدوران محض قریب دو ہفتوں میں ان قیمتوں میں مزید 20 فیصد سے زائد کی کمی آ چکی ہے۔ اس دوران عالمی منڈیوں میں خام تیل کے ایک بیرل کی قیمت 30 امریکی ڈالر سے بھی کم ہو چکی ہے۔
اے ایف پی کے مطابق خلیجی ممالک کی سات مالیاتی منڈیوں میں سے اکثر میں پچھلے دو ہفتوں کے دوران اتنا زیادہ خسارہ دیکھنے میں آ چکا ہے، جو گزشتہ پورے سال کے خسارے سے بھی زیادہ ہے۔ سعودی عرب میں، جو تیل برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک اور سب سے بڑی عرب منڈی ہے، سٹاک انڈکس میں 7.2 فیصد کی کمی دیکھی گئی۔
قطر سٹاک ایکسچینج میں خسارے کی شرح بھی 7.2 فیصد رہی جبکہ دبئی سٹاک ایکسچینج میں یہی مالیاتی خسارہ چھ فیصد رہا۔ اس کے علاوہ ابوظہبی میں خسارے کا تناسب پانچ فیصد جبکہ کویت میں 3.2 فیصد ریکارڈ کیا گیا۔
مالیاتی خسارے کا یہ رجحان اس لیے دیکھنے میں آیا کہ چھوٹے تاجروں کے ساتھ ساتھ بڑے تاجروں نے بھی اس خوف کے تحت اپنے حصص فروخت کرنا شروع کر دیے کہ آئندہ دنوں میں شیئرز کی قیمتوں میں مزید کمی دیکھنے میں آئے گی۔
کویتی مالیاتی تجزیہ کار علی النمیش کے مطابق، ’’خلیج کے اکثر کاروباری ادارے اپنے ملکوں کی حکومتوں پر انحصار کرتے ہیں، اور ان حکومتوں کا اپنا انحصار تیل سے آمدنی پر ہوتا ہے۔ کوئی بھی یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ تیل کی قیمتیں ابھی کس حد تک گریں گی۔‘‘
النمیش نے کہا کہ تیل کی عالمی منڈی میں قیمتوں پر اثر ایرانی تیل کی برآمد بحال ہونے سے بھی پڑے گا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عنقریب جب ایران بھی عالمی منڈی میں اپنا تیل فروخت کرنا شروع کر دے گا تو ایک لازمی نتیجہ خلیجی ریاستوں کی آمدنی میں کمی بھی ہو گا۔ اسی لیے آج کئی عرب ملکوں کی منڈیوں میں بڑا خسارہ دیکھنے میں آیا۔ یہ اور آئندہ مالی نقصانات طویل المدتی بنیادوں پر ان ریاستوں کے لیے پریشانی کا سبب بنیں گے۔
’اسرائیل ناخوش‘
ایران کے خلاف پابندیوں کے خاتمے کے بعد ملکی صدر حسن روحانی نے نہ صرف اس پیش رفت کو تہران کے لیے ایک ’نئے سنہری دور کا آغاز‘ قرار دیا بلکہ یہ بھی کہا کہ اس کامیابی پر ’انتہا پسندوں کے علاوہ باقی سب فریق‘ مطمئن ہیں۔
سرکاری ٹیلی وژن سے نشر کردہ ایرانی پارلیمان کے ارکان سے اپنے خطاب میں حسن روحانی نے کہا، ’’جوہری معاہدے پر عمل درآمد پر صیہونیوں، جنگ پسندوں، اسلامی ملکوں میں نفرت کے بیج بونے والوں اور امریکا میں انتہا پسندوں کے علاوہ ہر کوئی خوش ہے۔‘‘