ایران:اس سال اب تک چار سو سے زائد افراد کو پھانسی دے دی گئی
3 ستمبر 2024اقوام متحدہ کے ماہرین نے پیر کے روز ایران میں گزشتہ ماہ پھانسیوں کی تعداد میں اضافے پر سخت تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ اس سال اب تک ملک میں سزائے موت کی مجموعی تعداد 400 سے تجاوز کر گئی۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے 11 آزاد ماہرین کے ایک گروپ نے ایک بیان میں کہا کہ صرف اگست میں ایران میں کم از کم 81 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، جو کہ جولائی میں رپورٹ ہونی والی 45 پھانسیوں کے مقابلے بہت زیادہ ہے۔
’تہران حکومت اپنے عوام کو ’’پھانسی کی مشین‘‘ سے خوفزدہ کر رہی ہے‘
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ایران نے 2022 میں 582 افراد کو پھانسی دی
انہوں نے کہا کہ 2024 کے آغاز سے اب تک پھانسیوں کی تعداد 400 سے تجاوز کر گئی ہے، جن میں 15 خواتین بھی شامل ہیں۔
ماہرین، جن کا تقرر اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے ذریعے کیا گیا ہے لیکن وہ اقوام متحدہ کی جانب سے بات کرنے کےمجاز نہیں ہیں، کا کہنا ہے "ہمیں پھانسیوں میں اس تیزی سے اضافے پر گہری تشویش ہے۔"
ایران پھانسی دینے کے معاملے میں چین کے بعد دوسرے نمبر پر
ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ایران میں ہر سال چین کے علاوہ کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ پھانسی دی جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ماہرین، بشمول ایران میں حقوق کی صورتحال اور ماورائے عدالت پھانسیوں پر خصوصی نمائندوں، کا کہنا ہے کہ گزشتہ ماہ جن لوگوں کو پھانسی دی گئی ان میں41 ایسے افراد تھے جنہیں منشیات کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ منشیات کے جرم میں سزائے موت بین الاقوامی معیارات کی خلاف ورزی ہے۔
ماہرین نے 2021 کے بعد سے ایران میں منشیات کے جرائم کے لیے پھانسیوں میں بہت زیادہ اضافے پر افسوس کا اظہار کیا۔ صرف گزشتہ سال ہی منشیات سے متعلق 400 سے زیادہ سزائے موت دی گئی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں ایسی رپورٹس موصول ہوئی ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایران میں سزائے موت کے مقدمے اکثر طے شدہ ضمانتوں کو پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔
پھانسیوں کو روکنے کا مطالبہ
اقوام متحدہ کے ماہرین نے ایک مظاہرے میں شامل کرد رضا رسائی کے معاملے کی طرف اشارہ کیا ہے، جسے 6 اگست کو ایک تقریب میں اسلامی انقلابی گارڈز کور کے ایک رکن کے قتل کے الزام میں پھانسی دی گئی تھی۔ مظاہرے کے دوران اس نے ایک تختی اٹھا رکھی تھی جس پر لکھا تھا: "خواتین، زندگی، آزادی"۔
ماہرین نے کہا کہ اس کی سزا مبینہ طور پر تشدد کے ذریعے حاصل کیے گئے اعترافی بیان پر مبنی تھی۔ جب کہ اس کے ساتھی مدعا علیہان بھی قتل میں اس کے ملوث ہونے کے اپنے بیان سے مکر گئے تھے اور فرانزک شواہد کو چیلنج بھی کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ منصفانہ ٹرائل اور انصاف کے حصول کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی رپورٹوں کا مطلب یہ ہے کہ سزائے موت جیسا کہ اس وقت اسلامی جمہوریہ ایران میں رائج ہے، غیر قانونی پھانسی کے مترادف ہے۔
ماہرین نے کہا کہ وہ "انتہائی فکر مند ہیں کہ شاید بہت سے بے گناہ افراد کو پھانسی دی گئی ہو"۔ انہوں نے پھانسیوں کو روکنے کا مطالبہ کیا۔
ج ا ⁄ ص ز (اے ایف پی)