ایران میں خودکش حملے ریگی کی موت کا بدلہ ،جنداللہ
16 جولائی 2010العربیہ ٹیلی ویژن کے مطابق سیستان بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت زاہدان کی ایک بڑی شیعہ مسجد میں ہونے والے اِس دوہرے خودکش حملے میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے بھی بہت سے ارکان مارے گئے۔
زاہدان سے رکن پارلیمان علی حسین شہر یاری نے فارس میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پہلا حملہ آور ایک خاتون کے بھیس میں تھا اور خواتین کے ساتھ ہی مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا لیکن جب اسے روکا گیا تو اس نے دھماکہ کر دیا۔
اس دھماکے کے بعد جب لوگ زحمیوں کی مدد کے لئے جمع ہوئے تو ایک اور خود کش حملہ آور نے دوسرا دھماکہ کر دیا۔ یہ حملہ حضرتِ امام حسین کے یومِ ولادت کے موقع پر کیا گیا۔ سنی گروپ جند اللہ نے اِس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملہ جند اللہ کے لیڈر عبدالمالک ریگی کو سزائے موت دئے جانے کا بدلہ لینے کے لئے کیا گیا ہے۔ اِس سزا پر جون میں عملدرآمد کیا گیا تھا۔
ایران میں شیعہ مسلمان اکثریت میں ہیں جبکہ جند اللہ کے باغیوں کا تعلق سنی مسلمانوں کے ایک ایسے عسکریت پسند گروپ سے ہے، جس کے دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے ساتھ گہرے رابطے بتائے جاتے ہیں۔ جند اللہ کا لفظی مطلب خدا کے فوجی ہے۔
تہران حکومت کی طرف سے یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ اس تنظیم کو امریکہ کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ تہران کا دعویٰ ہے کہ امریکہ ان باغیوں کی مدد کر کے ایران میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتا ہے تاہم واشنگٹن ایسے الزامات کی تردید کرتا ہے۔
جند اللہ کا کہنا ہے کہ یہ تنظیم ایران میں سنی اقلیتی آبادی کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اس کے برعکس ایرانی حکومت ان دعووں کی یہ کہہ کر تردید کرتی رہتی ہے کہ اسلامی جمہوریہء ایران میں کسی بھی نسلی یا مذہبی اقلیت کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا۔
جند اللہ نے کئی دیگر تنظیموں کے ساتھ بھی رابطے قائم کر رکھے ہیں۔ جون میں سزائے موت پانے والے عبدالمالک ریگی نے دوہزار سات میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یہ گروپ بلوچ نسل کے عوام کے حقوق کی جنگ لڑ رہا ہے، جنہیں ایران میں مبینہ طور پر نسل کُشی کا سامنا ہے۔
اس انٹرویو میں ریگی نے اس بات کی بھی تردید کی تھی کہ جند اللہ کے طالبان اور پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے ساتھ بھی رابطے رہے ہیں۔
خود کو ایرانی عوام کی مزاحمتی تحریک کا نام دینے والی جند اللہ یا خدائی فوج کی بنیاد دوہزار دو میں رکھی گئی تھی اور اس نے اپنی مسلح تحریک کا آغاز دو ہزار پانچ میں کیا تھا۔
ایران کا جنوب مشرقی صوبہ سیستان بلوچستان اس تحریک کی سرگرمیوں کا مرکز ہے اور ماضی میں اغوا اور مسلح حملوں میں ملوث رہنے والے اس گروپ نے اب گزشتہ کچھ عرصے سے خودکش بم حملے کرنا بھی شروع کر دئے ہیں۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس گروپ کے اُن عسکریت پسند ارکان کی تعداد غالباً سو کےقریب ہے، جو آتشیں ہتھیاروں اور دھماکہ خیز مواد سے لیس ہیں۔
رپورٹ : عصمت جبیں
ادارت : امجد علی