ایران میں سلاخوں کے پیچھے زندگی گزارتی باہمت خواتین
آج کل بہت سی حوصلہ مند خواتین ایرانی جیلوں میں قید ہیں۔ ان میں حقوقِ انسانی کی علمبردار خواتین کے ساتھ ساتھ صحافی، فنکارائیں یا کسی بھی شعبے میں جدوجہد کرنے والی عام خواتین بھی شامل ہیں۔
نازنین زاغری - ریٹکلف
ایران اور برطانیہ کی دوہری شہریت کی حامل یہ خاتون تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی کارکن ہیں اور اپریل 2016ء سے جیل میں ہیں۔ وہ اپنی دو سالہ بیٹی کے ہمراہ ایران میں اپنے اہل خانہ کو ملنے کے لیے گئی تھیں۔ اُن پر الزام ہے کہ وہ دھیمے انداز میں ’اسلامی جمہوریہٴ ایران میں حکومت کا تختہ الٹنے‘ کی تیاریاں کر ر ہی تھیں۔ دنیا بھر کے صحافیوں کو تربیت فراہم کرنے والی فاؤنڈیشن نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
زہرہ رہ نورد
زہرہ رہ نورد اپوزیشن سیاستدان میر حسین موسوی کی اہلیہ ہیں۔ اُنہیں ایران کی معروف ترین خاتون سیاسی قیدی قرار دیا جا سکتا ہے۔ سن 2009ء کے متنازعہ صدارتی انتخابات کے بعد زہرہ رہ نورد نے، جو ایک پروفیسر ہیں، اپنے شوہر کی حمایت کی تھی۔ وہ مجسمہ ساز بھی ہیں اور امورِ سیاست کی ایک ممتاز محققہ بھی لیکن وہ فروری 2011ء سے اپنے شوہر کے ہمراہ کسی بھی فردِ جرم کے بغیر اپنے گھر میں نظر بند چلی آ رہی ہیں۔
نرگس محمدی
یہ خاتون انسانی حقوق کے لیے سرگرم ہیں۔ اگرچہ اُن کی سرگرمیاں پُر امن تصور کی جاتی ہیں لیکن مئی 2016ء میں اُنہیں سولہ سال کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا۔ جون کے اواخر سے وہ بھوک ہڑتال پر چلی گئیں کیونکہ حکام اُنہیں اپنے جڑواں بچوں کے ساتھ فون پر بھی رابطہ نہیں کرنے دے رہے تھے۔ بیس روز کی بھوک ہڑتال کے بعد بالآخر اُنہیں ہفتے میں ایک بار اپنے بچوں کے ساتھ فون پر بات چیت کی اجازت دے دی گئی۔
ہما ہودفر
کینیڈا اور ایران کی دوہری شہریت کی حامل ہما ہودفر ایک ماہرِ بشریات ہیں اور چھ جون 2015ء سے تہران کی بدنامِ زمانہ اوین جیل میں قید ہیں۔ یہ ممتاز محققہ گزشتہ سال فروری میں ایک نجی دورے پر ایران گئی تھیں۔ وہ ایرانی سیاست میں خواتین کے تاریخی کردار پر تحقیق کرنا چاہتی تھیں۔ اُن پر الزام ہے کہ انہوں نے ایک ’نسوانی سازش‘ کو ہوا دی ہے۔
بہارہ ہدایت
اِس خاتون کو ایران میں طالب علموں اور خواتین کی تحریک کے درمیان رابطے کے حوالے سے مرکزی شخصیت گردانا جاتا ہے۔ اُنہیں 2010ء میں اپنی شادی کے کچھ ہی عرصے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا اور 9 سال کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا تھا۔ تب وہ طلبہ کی ایک تنظیم OCU (آفس فار کونسیلیڈیٹنگ یونٹی) کی سربراہ تھیں، جو ملک میں سیاسی اصلاحات کے لیے کوشاں تھی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف سرگرم تھی۔
ریحانہ طباطبائی
سیاسی امور پر لکھنے والی اس صحافی خاتون کو کئی مرتبہ جیل جانا پڑا ہے۔ اس بار وہ جنوری 2016ء سے سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ اُن پر ریاست کے خلاف پراپیگنڈا کرنے کا الزام ہے۔ ریحانہ طباطبائی کو ایک سال قید کا حکم سنایا گیا ہے اور اُن پر دو سال تک کے لیے اپنے شعبے میں کام کرنے کی پابندی لگا دی گئی ہے۔ انقلابی عدالت نے دو سال تک کے لیے اُنہیں کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے سے منع کر دیا ہے۔
فریبہ کمال آبادی
آٹھ سال تک جیل میں رہنے کے بعد فریبہ کمال آبادی (دائیں سے تیسرے نمبر پر) اس سال مئی کے اوائل میں جیل سے چھٹیوں پر باہر آئیں۔ 2008ء تک وہ بہائی فرقے کی نمائندگی کرنے والی سرکردہ ترین خاتون تھیں۔ اُنہیں اپنے عقیدے کی وجہ سے بیس سال کی سزائے قید کا حکم سنایا گیا تھا۔ جیل سے چھٹیوں کے دوران سابق صدر علی اکبر رفسنجانی کی بیٹی فائزہ ہاشمی کے ساتھ اُن کی ملاقات کو ’اسلام سے غداری‘ کے مترادف قرار دیا گیا۔