ایران میں مظاہرے: ہلاکتیں اور مغربی اقوام کا ردعمل
28 دسمبر 2009ایرانی دارالحکومت میں اتوار کے روز ہوئے پرتشدد مظاہروں کے دوران ہونے والی ہلاکتوں پر امریکہ کی جانب سے مذمتی بیان سامنے آیا ہے۔ اِن مظاہروں میں کم از کم پانچ افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کر دی گئی ہے۔ امریکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس میں قائم قومی سلامتی کونسل سے جاری ہونے والے بیان میں حکومتی ایکشن کو عام شہریوں پر غیر منصفانہ جبر کہا ہے۔ اسی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان مائیک ہیمر نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ امید اور تاریخ ایرانی عوام کے ساتھ ہیں جو اپنے آفاقی حقوق کے متلاشی ہیں۔ امریکہ نے مظاہرین کے ساتھ یک جہتی کا بھی اظہار کیا ہے۔
اسی طرح یورپی ملک اٹلی نے بھی مظاہرین پر حکومتی کریک ڈاؤن کی مذمت کی ہے۔ اطالوی حکومت نے ایران کی اسلامی حکومت کو مظاہرین کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرنے پر زور دیا ہے۔ اٹلی کی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ انسانی جانوں کی حفاظت بنیادی اقدار میں شامل ہے جس کی پاسداری ہر جگہ ہر حال میں ضروری ہے۔
ایک اور یورپی ملک فرانس نے بھی مظاہرین کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائی کی پرزور مذمت کی ہے۔ فرانس نے سیاسی حل کو وقت کی ضرورت قرار دیا ۔ فرانسیسی وزارت خارجہ کے مطابق حکومتی کارروائی لوگوں کے آزادئ رائے اور جمہوریت کی خواہش کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔ فرانسیسی حکومت نے مرحومین کے خاندانوں سے اظہار ہمدردی بھی کیا ہے۔
دُبئی ٹیلی ویژن کے ایک شامی کارکن رضا الباشاہ کے لاپتہ ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ امکانی طور پر وہ حکومتی حراست میں ہو سکتے ہیں۔ تہران کے فارن پریس بیورو نے اِس کی تصدیق کی ہے کہ رضا الباشاہ کا نام ہلاک یا زخمی ہونے والوں میں شامل نہیں ہے۔
ایرانی دارالحکومت تہران میں عاشورہ کے مذہبی جلوس کے دوران ایران کے اصلاح پسندوں نے سینکڑوں کی تعداد میں دارالحکومت کی گلیوں اور سڑکوں پر جمع ہو کر حکومت کے خلاف احتجاجی ریلی کا اہتمام کردیا۔ اِس پر اُن کی سکیورٹی فورسز سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ جھڑپوں کے دوران سرکاری اہلکاروں کی فائرنگ سے کم از کم پانچ افراد کی ہلاکت کی سرکاری طور پر تصدیق کی گئی ہے جب کہ اصلاح پسندوں کی حامی ویب سائٹس نے ہلاک شدگان کی تعداد آٹھ بتائی ہے۔
ہلاک ہونے والوں میں اصلاح پسند لیڈر میر حسین موسوی کے بھتیجے علی حبیبی موسوی بھی شامل ہیں۔ سرکاری میڈیا کے مطابق حکومت نے مرحوم علی حبیبی کو گمنام قاتلوں کا شکار قرار دینے کے علاوہ اِن مشتبہ ہلاکتوں کی انکوائری کا اعلان بھی کیا ہے۔ ریلی کے دوران مظاہرین کو لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے سیکیورٹی اہلکاروں نے ہوائی فائرنگ بھی کی۔
حکومت مخالف ویب سائٹ جرس کے مطابق رات گئے پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری رہا۔ پولیس نے تین سو سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ مختلف مقامات پر پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔
ایرانی حکومت نے عاشورہ کے جلوس کے دوران موسوی کے حمایتیوں کی ریلیوں کو غیر ملکی میڈیا کی ہدایت پر عمل کرنے سے تعبیر کیا ہے۔ ایران کے سب سے اہم مذہبی لیڈر آیت اللہ العظمیٰ خامنائی کے ترجمان مجتبیٰ ظلنور کا کہنا ہے کہ ایرانی عوام اب تک صبر سے سب کچھ برداشت کر رہے ہیں لیکن موجودہ نظام کے اندر بھی صبر کی ایک حد ہے۔ مجتبیٰ ظلنور کا بیان نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی فارس نے جاری کیا ہے۔
رپورٹ : عابد حسین
ادارت : شادی خان