1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایران کا متنازعہ جوہری پروگرام، عالمی مذاکرات کا تازہ دور جاری

عاصم سلیم9 اپریل 2014

ايران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے حل کے ليے مذاکرات کا تازہ دور شروع ہو چکا ہے۔ دريں اثناء امريکا نے دعوی کيا ہے کہ ايران ايٹمی ہتھيار کے ليے درکار ايک اہم مرحلے کی صلاحيت کا حامل بننے سے محض دو ماہ کی دوری پر ہے۔

https://p.dw.com/p/1Be60
تصویر: AFP/Getty Images

امريکا، برطانيہ، روس، جرمنی، فرانس اور چين پر مشتمل چھ عالمی طاقتوں کے ’فائيو پلس ون‘ کہلانے والے گروپ اور ايران کے درميان مذاکرات کا تازہ دور آٹھ اپريل سے يورپی رياست آسٹريا کے دارالحکومت ويانا ميں شروع ہوا ہے۔ يہ دور دو روز تک جاری رہے گا۔ ان مذاکرات ميں چھ عالمی طاقتوں کی نمائندگی کرنے والی يورپی يونين کے خارجہ امور کی سربراہ کيتھرين ايشٹن کے ترجمان کے بقول اس دور ميں تمام فريقين ممکنہ جوہری معاہدے کے امور پر ايک دوسرے کا موقف جاننے کی کوشش کر رہے ہيں۔

Verhandlungsrunde zum iranischen Atomprogramm in Wien 19.03.2014
مکنہ ڈيل کے مسودے پر کام آئندہ ماہ مئی ميں شروع کيا جا سکتا ہےتصویر: AFP/Getty Images

ايران کے وزير خارجہ محمد جواد ظريف نے منگل کے روز بتايا کہ انہوں نے قانونی ماہرين پر مشتمل ايک گروپ تشکيل ديا ہے، جو کسی ممکنہ ڈيل کے مسودے کو تيار کرنے کا ’پيچيدہ، مشکل اور سست رفتار‘ کام مکمل کرے گا۔

ايک سينئر امريکی اہلکار نے گزشتہ جمعے کے روز کہا تھا کہ وہ کافی پر اعتماد ہيں کہ فريقين کے مابين ڈيل طے پا سکے گی اور اس ممکنہ ڈيل کے مسودے پر کام آئندہ ماہ مئی ميں شروع کيا جا سکتا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق چھ عالمی طاقتوں کے گروپ سے تعلق رکھنے والے ايک سفارت کار نے بتايا کہ گروپ نے مئی کے اواخر يا جون کے آغاز تک ڈيل کا مسودہ تيار کرنے پر اندرونی سطح پر اتفاق کر ليا ہے۔

واضح رہے کہ ايران اور چھ عالمی طاقتوں کے مابين گزشتہ برس نومبر ميں چھ ماہ دورانیےکی ايک عارضی ڈيل طے پائی تھی، جس کے تحت تہران کو چند متنازعہ جوہری سرگرميوں کو ترک کرنے کے بدلے میں کچھ مالی پابنديوں میں چھوٹ دی گئی ہے۔ اس ڈيل کی مدت بيس جولائی کو ختم ہو رہی ہے۔ فريقين اس عرصے ميں ايک جامع اور طويل المدتی ڈيل کو حتمی شکل دينے کی کوششوں ميں ہيں، جس کے ذريعے ايران اور مغربی ممالک کے درميان کئی سال سے چلے آ رہے فاصلے مِٹ سکيں گے۔

واضح رہے کہ امريکا اور ديگر مغربی ممالک کو شبہ ہے کہ ايران اپنے جوہری پروگرام کی آڑ ميں جوہری ہتھيار تيار کرنے کی کوشش میں ہے جبکہ تہران انتظاميہ اس الزام کو رد کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کا ايٹمی پروگرام پر امن مقاصد کے ليے ہے۔

دريں اثناء امريکی وزير خارجہ جان کيری نے گزشتہ روز دارالحکومت واشنگٹن ميں يہ دعوی کيا ہے کہ اگر تہران انتظاميہ چاہے تو محض دو ماہ کے عرصے ميں ايٹم بم کے ليے درکار ’فزل مٹيريل‘ يعنی نيوکليئر فژن چين ری ايکشن کے آغاز‘ کی صلاحيت حاصل کر سکتی ہے۔ کيری نے يہ بات سينيٹ کی ايک کميٹی کو بريفنگ ديتے ہوئے کہی۔

حامد ابو طالبی اقوام متحدہ ميں بطور ايرانی سفير نا منظور، امريکا

US-Außenminister Kerry wirft Russland Anstiftung zum Aufstand in der Ostukraine vor NICHT FÜR OVERLAY
امريکی وزير خارجہ جان کيریتصویر: Saul Loeb/AFP/Getty Images

واشنگٹن حکومت نے حامد ابو طالبی کی اقوام متحدہ ميں بطور ايرانی سفير مجوزہ تقرری پر اپنے تحفظات کا اظہار کيا ہے۔ امريکی سينيٹ ميں پير کے روز منظور کيے جانے والے ايک بل کے تحت ابو طالبی کی ايرانی سفير کے طور پر اقوام متحدہ ميں تقرری کو روکا جائے گا۔

يہ معاملہ اب امريکی ايوان نمائندگان ميں پيش کيا جائے گا۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے منگل کے روز اپنی بريفنگ کے دوران بتايا کہ تہران حکومت کو يہ پيغام پہنچا ديا گيا ہے کہ عہدے کے ليے ان کے انتخاب پر عمل در آمد ممکن نہيں۔ حامد ابو طالبی مسلمان طالب علموں کے اس گروپ ميں شامل تھے، جس نے تہران ميں 1979ء ميں امريکی سفارت خانے پر قبضہ کرتے ہوئے باون امريکيوں کو مغوی بنا ليا تھا۔